صحت

کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کے درمیان خود کشی کی وجہ بن رہا ہے؟

واشنگٹن: امریکا میں سنجیدہ حلقے نوعمر (ٹین ایج) لڑکے اور لڑکیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رحجان سے سخت پریشان ہیں اور ان کے خیال میں اس کی وجہ فیس بک اور سوشل میڈیا ہوسکتے ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو عشروں سے نوجوانوں میں خودکشی کا رحجان بتدریج کم ہورہا تھا لیکن سال 2010 سے 2015 کے درمیان اس میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماہرین اس کی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس ضمن میں کوئی واضح جواب کسی کے پاس نہیں لیکن نفسیاتی و سماجی ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ پر تنقید یعنی ’سائبر بلیئنگ‘ (cyber bullying) اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا پر نوعمر بچوں کی ذہنی تباہی کے تمام لوازمات موجود ہیں۔
امریکہ میں کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی خودکشی کے بعد جب سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کے اثرات پر ایک سروے کیا گیا تو کولوراڈو کی ایک 17 سال لڑکی نے بتایا کہ وہ انسٹا گرام کی تصاویر اور پوسٹس دیکھ دیکھ کر اکتا جاتی ہے۔ اس مہم کے تحت نوعمر بچوں کو آف لائن وقت گزارنے کو بھی کہا گیا تھا۔ اس مہم میں نوجوانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کم ازکم ایک ماہ تک آف لائن رہیں اور انٹرنیٹ سے دور رہیں۔
ایک اور17 لڑکی کلو ای شلنگ نے کہا کہ سوشل میڈیا سے جس برے انداز میں لوگ گزر رہے ہیں وہ ان کے بارے میں کچھ پوسٹ نہیں کرتے۔ امریکہ میں سی ڈی سی کے مطابق امریکہ میں 13 سے 18 سال کی بڑی آبادی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ ایک سروے میں 13 سے 18 سال کے 5 لاکھ نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کو شامل کیا گیا۔ ان سے دوستوں سے ملاقات اور سماجی تعلقات اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ان کے موڈ کے بارے میں پوچھا گیا اور خودکشی کے خیالات کی چھان بین بھی کی گئی۔

پانچ لاکھ نوعمر بچوں کے سروے کے بعد اس مطالعے سے جو نکات سامنے آئے وہ کچھ اس طرح تھے کہ شرکا روزانہ اوسط پانچ گھنٹے اپنے اسمارٹ فون پر صرف کرتے ہیں اور یہ شرح 2009 میں 8 فیصد تھی جو 2015 میں بڑھ کر 19 فیصد تک جاپہنچی۔ اب جو بچے روزانہ ایک گھنٹہ صرف کرتے تھے ان کے مقابلے میں زیادہ یعنی پانچ گھنٹے اسمارٹ فون سے کھیلنے والوں میں خودکشی کے خیالات 70 فیصد زائد نوٹ کیے گئے۔
2015 میں 36 فیصد شرکا نے کہا کہ وہ خود کو اداس اور بے بس محسوس کرتے ہیں جبکہ 2009 میں یہ شرح 32 فیصد تھی۔ لڑکیوں میں یہ شرح 2015 تک 45 فیصد تک نوٹ کی گئی۔ جو لوگ بار بار سوشل میڈیا پر جاتے تھے، وہ بقیہ لوگوں کے مقابلے میں 14 فیصد زیادہ ڈپریشن کے شکار تھے۔ اس کی وجہ سوشل میڈیا پر وہ پوسٹس ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی الجھن تو کوئی احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس سروے کی سربراہ ڈاکٹر جین ٹوینگے سان ڈیاگو یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ والدین اپنے نوعمر بچوں پر نظر رکھیں اور ان کےلیے اسمارٹ فون استعمال کرنے کے وقت کی حد مقرر کریں۔ تاہم نوجوانوں کے ایک معالج ڈاکٹر وکٹر اسٹراسبرگر کہتے ہیں کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
وکٹر کے مطابق کچھ لوگ سوشل میڈیا کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے اور مثال دیتے ہیں کہ جب امریکہ میں کامک بکس آئیں، جب ٹی وی کا راج شروع ہوا اور جب راک اینڈ رول کا رحجان بڑھا تو لوگوں نے کہا کہ اب دنیا خاتمے کے قریب ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاہم سوشل میڈیا دوطرفہ تنقید کا ایک اہم ذریعہ ہے اور یہاں لوگ خفیہ رہتے ہوئے بھی دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہمیں اسی منفی قوت کو سمجھنا ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker