آرٹیکل
رمضان کا مہینہ ، رحمتوں کا نزول
میرے مسلمان بھائیو آپ تمام کو رمضان مبارک ہو ۔ اللہ تعالیٰ اس بابرکت مہینہ میں سب کی عبادتوں کو قبول فرمائے۔ رمضان سورج کی تپش کو کہتے ہیں ۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تما م جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا ہوتا ہے ۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہؤا۔ اہل لغت کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لئے رمضان کہلایا۔
میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ عرب کے لئے خصوصیت نہیں ہو سکتی ۔ روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے۔ ’’رمض ‘‘ اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں ’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن (سورۃ البقرہ۔۱۸۶)۔ یہ ایک فقرہ ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے ، کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہء نفس کرتی ہے اور صوم (روزہ ) تجلئ قلب کرتا ہے ۔ تزکیہء نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوت سے دوری اور تجلئ قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔ پس ’’انزل فیہ القرآن‘‘میں یہی اشارہ ہے ۔ اس میں شک و شبہ کوئی نہیں روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے محروم رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں ۔ایک عبادات مالی دوسرے عبادات بدنی ۔ عبادات مالی تو اسی کے لئے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جس کے پاس نہیں وہ معذور ہیں اور عبادات بدنی کو بھی انسان عالم جوانی میں ہی ادا کر سکتا ہے۔ ورنہ ساٹھ سال جب گزرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں ۔ یہ ٹھیک کہا کہ پیری و صد عیب۔ جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اسی کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صدہا رنج برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ موئے سفید از اجل آرد پیام۔
انسان کا فرض ہے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجا لائے ۔ روزہ کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ’’و ان تصوموا خیرالکم‘‘ یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمھارے واسطے بڑی خیر ہے ۔ یہ دن مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں۔ یہ اسلام کا اہم رکن ہے۔ روزہ کی حقیقت سے لوگ ناواقف بھی ہیں۔ روزہ صرف اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی حقیقت اور اس کا اثر ہے تجربہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہء نفس ہو تا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے۔ تاکہ تقویٰ حاصل ہو پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور صرف رسم کے طور پر نہیں رکھتے، انہیں چاہئے کہ حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا نہیں مل جائے ۔
اس مہینہ میں ایک رات ایسی بھی آتی ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے (سورۃ القدر سپارہ ۳۰) جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ اسی ماہ قرآن کا نزول ہؤا ۔ اورحضرت محمد مصطفیٰﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ جب آپؐ کی عمر چالیس برس ہوئی تو ایک روز غار حرا میں عبادت کے دوران ایک فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپکے سامنے ظاہر ہؤا۔ یہ رمضان کا با برکت مہینے کا آخری عشرہ اور سوموار کا دن تھا اس نے کہا ’’اقراء‘‘ یعنی ’’ پڑھ‘‘ آپؐ نے کہا کہ میں تو پڑھ نہیں سکتا۔ یعنی یہ کام میری طاقت سے باہر ہے ۔ فرشتہ نے آپﷺ کو سینہ سے لگا کر تین مرتبہ زور سے بھینچا اور پھر آیات آپ ﷺ کو سنائیں ۔ قرآن مجید کا رمضان میں نازل ہونا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو روزوں سے خاص تعلق ہے۔ آنحضرت ﷺ کے پاکیزہ دل کی حرارت روحانی کا نتیجہ تھا کہ آپؐ پر اللہ تعالیٰ نے ایسا جامع کلام نازل فرمایا ۔ آئندہ کے لئے کوئی نئی شریعت آنے والی نہیں ۔ روزہ الہام پانے کا ذریعہ ہے کیونکہ روزہ کے ذریعے سے انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرتا ہے۔ زبان حال سے مومن کہتا ہے کہ میں کھانے پینے کا محتاج ہونے کے باوجود اپنے محبوب آقا کے حکم کے مطابق اس کے رنگ میں رنگنے کے لئے تیار ہوں۔ پس رمضان مومن کی کامل قربانی کی عملی تصویر ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا ۔’’ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دئیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کے روزے ایمان کی حالت اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے (صحیح بخاری کتاب الایمان باب صوم رمضان احتیابامن الایمان۔ حدیث نمبر۳۸) اور پھر خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے تو میں ایسے روزہ دار کی جزا بن جاتا ہوں(صحیح البخاری کتاب التوحیدباب ذکر النبیؐروایت حدیث۷۵۳۸۔ آنحضرت ﷺ نے رمضان کی راتوں کے نوافل کو بڑی اہمیت دی ہے ۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری الایمان باب تطوع قیام رمضان من الایمان حدیث نمبر۳۷)
روزے کا حق ادا کرنے کے لئے، تقویٰ کے حصول کے لئے اپنے جذبات پر کنٹرول بھی ضروری ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو جھگڑوں سے بھی بچانا ہے ، ہم نے اپنے آپ کو جھوٹ اور غلط بیانی سے بھی بچاناہے اور اپنے غریب بھائیوں اور اپنے پڑوسیوں کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں آنحضرت ﷺ آندھی کی طرح صدقہ خیرات کیا کرتے تھے۔ تاکہ روزے کا مقصد پورا ہو۔ ایک مہینے کی عادت کی مستقل مزاجی سے برائیوں سے پرہیز کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ تقویٰ پر مستقل چلنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور یہ عادت ہی اصل میں روزہ اور رمضان کا مقصد ہے۔ ورنہ صرف سال میں ایک مہینہ نیکیوں کے عمل اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی کوشش اور گیارہ مہینے اپنی مرضی سے دنیا کا اثر، برائیوں میں ملوث ہونا تو کوئی مقصد پورا نہیں کرتا۔ لہٰذا رمضان کے مہینے میں عبادات اور قربانی کا جو خاص ماحول پیدا ہوتا ہے اسے مستقل اپنانے کی ضررت ہے تاکہ ہم متقیوں کے گروہ میں شامل ہونے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار کرتے ہوئے جھکیں اور ان خوش قسمتوں میں شامل ہو جائیں جو توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو رمضان میں وہ خوشی پہنچانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کوخوشی پہنچانے کے لئیے ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے ان عبادتوں جن میں فرائض بھی ہیں اور نوافل بھی، کے معیار کو بلند کرنا ہو گا۔ روزوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے یہ سب کچھ اس رمضان میں ہمیں حاصل کرنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
رمضان اپنی عظیم الشان برکات کے ساتھ آیا ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ اس کی جملہ برکات سے مستفید ہونے کی کوشش کریں۔