آرٹیکل

!فحش کون منٹو یا ہمارا معاشرہ۔۔۔

 تحریر : سیّد تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ

 سعادت حسن منٹو نے معاشرے کے تلخ حقائق اور عورت اور مرد کے جنسی تعلقات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔معاشرے کے تلخ حقائق کے تناظر میں ہتک، ٹھنڈا گوشت، بو، کالی شلوار، کھول دو، پانچ دن، دھواں، بلاؤز، خوشیا، کبوتر اور کبوتری، اور وہ لڑکی وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن میں منٹو نے جنس نگاری اور عریاں نگاری کو بہت ہی لطافت، مہارت اور فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا۔ ”کھول دو“ منٹو کا ایک ایسا شاہکار افسانچہ ہے جو جواں سال لڑکی سکینہ اور اُسکے مظلوم باپ سراج الدین پر لکھا گیا ہے جس میں ایک باپ اپنی بیٹی کو زندہ دیکھ کر حقیقی مسرت محسوس کرتا ہے۔ عصمت دری کا شکار ہونے والی سکینہ ایک ایسی مظلوم لڑکی ہے جو مسلم رضا کاروں کے ہاتھوں اپنے لاشعور کی حد تک اس قدر سہم گئی کہ ”کھول دو“ کے الفاظ پر وہ صرف ایک ہی رد عمل کا غیر شعوری طور پر اظہار کرتی ہے اور ”کھڑکی کھول دو“ کے جو الفاظ کمرے میں تازہ ہوا داخل کرنے کے لئے کہے گئے تھے۔ نیم مردہ حالت میں پڑی سکینہ پر اسکا اثر یوں ہوتا ہے۔۔: ڈاکڑ نے اسٹریچر پر پڑہی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اسکی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا ”کھڑکی کھول دو“۔ سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اُس نے اِزار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ کیونکہ اسے صرف اتنا ہی یاد رہتا تھا کہ وہ جہاں تھی اسے بس یہی کہا جاتا تھا، اور اسکی مسلسل توہین کی جاتی تھی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔۔زندہ ہے۔۔! میری بیٹی زندہ ہے۔۔! ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینہ میں غرق ہو گیا۔۔!افسانوی دنیا میں منٹو کی بات کالی شلوار سے شروع ہوکر کھول دوپر آکر رُک گئی لیکن حقیقی اور معنوی دنیا میں تو نوبت اب اتارنے تک آ پہنچی ہے جسکی حسرت حافظ حمد اللہ ظاہر کی۔”کھول دو“ کے برعکس ”اتارنے والا“ یہ کردار ملا حمد اللہ ہے جسے دوسروں کی شلواریں اتارنے کا شوق چڑھا ہو اہے۔جس ہیبت ناک تصویر کو منٹو نے اپنے افسانے ”کھول دو“ میں پیش کیا ہے وہ تصویر جنبش ِ نشاط اور جنس زدگی یا فحاشی کا اشتہار نہیں بلکہ یہ روح کے شدید المیے کا اظہار، انسان کی اصلیت اور اسکی فطرت کی آئینہ دار ہے۔ شائد ایسے لوگوں کے بارے میں منٹو نے کہا تھا کہ معاشرے کے تاریک پہلو ؤں سے پردہ اٹھاتی میری تلخ کہانیوں میں اگر آپ کو جنسی لذت نظر آتی ہے تو یقینا آپ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ”مجھے آپ افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں، اور عدالتیں ایک فحش نگار کی حیثیت سے، حکومت مجھے کمیونسٹ کہتی ہے اور کبھی ملک کا بہت بڑا ادیب۔ کبھی میرے لیے روزی کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور کبھی کھولے جاتے ہیں۔ میں پہلے بھی سوچتا تھا اور اب بھی سوچتا ہوں کہ میں کیا ہوں۔ اس ملک میں جسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کہا جاتا ہے، میرا مقا م کیا ہے، میرا اپنامصرف کیا ہے۔؟“سعادت حسن منٹو کا کہنا تھا کہ ”میں نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہے جہاں آزادیء گفتار اور آزادی ء خیال بہت بڑی بدتمیزی تصور کی جاتی ہے، جہاں سچی بات کہنے والا بے ادب اور اپنی خواہشات کو دبانا بہت بڑا ثواب خیال کیا جاتا ہے۔“ منٹو صاحب سے عرض ہے کہ جس فضا اور بیمار معاشرے کا ذکر آپ نے برسوں پہلے کیا تھا وہ تب سے اب تک ”منجمد“ ہے۔ کم فہم اور کم ظرف لوگ اب بھی منٹو کے افسانوں کو فحشی نظروں سے دیکھتے ہیں مگر در حقیقت انہوں نے انسان کی توجہ طلب و حل طلب سماجی، نفسیاتی اور جنسیاتی مسائل سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ کم ظرف یہ سمجھتے رہے کہ سعادت حسن منٹو اپنے افسانوں میں عورتوں کے کپڑے اتارتا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ان ہی عورتوں کے بارے میں لکھا ہے کہ جن کے کپڑے حالات، معاشرے اور مولوی حمد اللہ جیسے لوگوں نے اُتارے ہیں۔ ”ہتک“ کی سوگندھی ہو، ”کھول دو“ کی سکینہ، ”کالی شلوار“ کی سلطانہ، یا پھر ”ٹھنڈا گوشت“ افسانے کی کلونت کور، یہ منٹو کے وہ کردار ہیں جو حالات و واقعات کے مارے ہوئے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کی غلاظت کو دیکھ کر ناک پر رومال رکھنا اور منہ موڑ لینا گوارا نہیں کیا بلکہ وہ سب کچھ لکھا جو معاشرے نے انہیں دکھایا اور سکھایا۔ انکے افسانے آج بھی اس سماج کی عکاسی کرتے ہیں جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔آج بھی دین کی سربلندی کے نام پر ایک ہاتھ تلوار اور دوسرا شلوار پر رکھنے والے صاحبان ِ فضیلت کا کردار اور انکی گفتار گواہ ہے کہ انہوں نے جبہ و دستار کے مقدس پردوں میں ایک ایسا کندہ ناتراش ذہن رکھا ہے کہ جو چوک چوراہے کہ لغت میں سوچتا ہے اور جنکی ہذیان گوئی سے ان کا باطن جھاگ کی طرح اُنکے منہ سے باہر نکلتاہے۔ہمیں تو بہت پہلے سے ہی معلوم تھا چلو اچھا ہو ا بہت ساروں کو ان علما ء کے سفید لبادوں کے اندر کی حقیقت کا راز جاننے میں آسانی ہوگئی۔ یقینا رمضان المبار ک کے بابرکت اورمقدس مہینے میں اُمت ِ مسلمہ کو اپنے علماء کا علمی معیار اور زبان و بیان کا ذوق دیکھنے سے نہ صرف دل و دماغ کے بند دریچے کھلے ہوں گے بلکہ بہت عرصے بعد روحانی بالیدگی بھی نصیب ہوئی ہو گی۔ مادر پدر آزاد زُ ہد و تقویٰ کے پتلوں کا طرز تخاطب،علم و حلم کے لہجے میں اخلاق اور پارسائی کاعمامہ پہنے بارونق، باوقار اور بارعب صورت والے حافظ حمد اللہ نے نجی ٹی وی کے ٹا ک شو میں ماروی سرمد پر جو گہر افشانی کی میری تو یہ تاب نہیں کہ اسے یہاں درج کر سکوں کہ ایسی گفتگو شریعت کا نام لینے والے ایسے علما ہی کے شایان شان ہے۔ اور خاص طور پر ان کو زیب دیتی ہے جو اپنے نام کے ساتھ بہت فخر کے ساتھ حافظ بھی لکھتے ہیں جنہیں عا م طور پر دیہاتی علاقوں میں اندھے بھی کہا جاتا ہے۔ بہرحال جس کے سینے میں قرآن پاک جیسی آفاقی کتاب محفوظ ہو اسے میں اندھا تو بالکل بھی نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی ان سے ایسی غلیظ گفتگو کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ہم تو انسانیت کا خون کرنے والے خارجیوں کی انسانیت دشمنی پر نوحہ کناں تھے اب شرف ِ آدمیت و انسانیت، اخلاق و اقدار اور عزتوں کے جنازے نکالنے اور تہذیب و روایات کا بلدکار کرنے ان دیندار فحش گو ملاؤں کے بارے میں کوئی ا لفاظ ہی نہیں جو کہیں۔۔! آج بھی وہی سسکتی اور بلکتی صورتیں ہمارے اردگرد گھومتی نظر آتی ہیں، مگر پھر بھی ہم منٹو کو برا بھلا کہتے ہی، نا جانے کیوں۔؟ہمارے اردگرد مولوی حمداللہ جیسے ڈراؤنے کرداروں کی تنگ نظری ہے جنکے نزدیک عورتوں کا اسلام شٹل کاک برقعے پہننے، جسمانی تشدد اور انکی شلواریں اتارنے تک محدودہے۔ ہمارے ملاّ یا پھر وہ حضرات جنہیں عورت ہمیشہ کم عقل، کم ظرف اور جاہل نظر آتی ہے وہ یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے سماج میں عورت کی کتنی عزت اور آزادی ہونی چاہیے اور اسے مار پیٹ کے کون سے طریقے درست ہیں ۔ عورتوں کو گالی دینا، اسے معاشرے کی ایک ابتر مخلوق کے طور پر ثابت کرکہ اسیبے عزت کرنے کا سرٹیفیکیٹ تو ہمارے پارساؤں نے ایک طویل عرصے سے اپنے پاس رکھا ہوا ہے مگر وہ عورت کا احترام کرنے میں اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ مذہبی رواداری، صبر، اور اسلام کے فضائل و احکام بیا ن کرنے میں ہمارے پارسا تھکتے نہیں اور انکا لب و لہجہ اور کردار ایسا ہے کہ انکی باتیں سن کر کانوں کو وضو کرانے کو دل کرتا ہے۔ اس سماج کو چودہ سو سال پیچھے دھکیلنے والوں کو نا جانے کیوں نہیں سمجھ آ رہی کہ عورت کے بنا سماج کا وجود اور صحت مند معاشرے کی تشکیل و تکمیل ناممکن ہے۔ منٹو نے معاشرے کے انہی تلخ حقائق اور عورت اور مرد کے جنسی تعلقات کو اپنے بہت سارے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ اسی آلودہ فضا اور بیمار معاشرے پر لکھنے کے عوض منٹو پر بارہا مرتبہ مقدمے قائم کئے گئے، انہیں عدالتوں میں گھسیٹا گیا، ان پر جرمانے ہوئے اور سزائیں ہوئیں، ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہوں پر اُنکے لئے عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور اس اذیت اور کرب کی وجہ سے سعادت حسن منٹو کے اعصاب جواب دے گئے اور انہیں دو مرتبہ ذہنی توازن سے محروم ہونا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ پاکستان کی انتہا پسند مذہبی ذہنیت کو بے نقاب کرنے والے حافظ حمد اللہ نے نجی ٹیلی ویژن پر ماروی سرمد اور اسکی ماں کی شلوار اُتارنے کی دھمکی دیکر ایک مرتبہ پھر سعادت حسن منٹو کی روح کو ہلا کر رکھ دیا ہوگا،منٹو آج بہت خوش ہونگے کہ وہ بعد از مرگ بھی اپنا مقدمہ حقیقی معنوں میں جیت گئے ہیں۔ مذہبی طبقات اس گفتار کے بعدسعاد ت حسن منٹو کی قبر پر جا کر ان کی روح سے معافی مانگیں کہ خواہ مخواہ اُن پر سچائی لکھنے کی پاداش میں مقدمے قائم کرتے رہے اور ایسے ہی ” باوضع اور باشرع علمائے دین“ کی جانب سے دئیے جانے والے فتووؤں اور ذہنی اذیتیوں کی تاب نہ لا کروہ صرف ۲۴ سال ۸ ماہ اور ۹ دن کی مختصر سی زندگی گذارنے کے بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker