شہزادی صائمہ شیروانی
دین اسلام کا مل ضابطہ حیات ہے جس میں تمام دینی و دنیو ی مسائل و مشکلات کی مکمل نشاندھی اور ان کا حل موجو د ہے خرابی تب پیدا ہو تی ہے جب ہم اپنی سہولت اور منشاء کے لیے ان میں ر د و بدل کی مذموم کوشیش کرتے ہیں جسکی وجہ سے کئی خرابیاں جنم لیتی ہیں جو ایک خوشحال گھرانے کو پیچیدہ مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتی ہیں عقل و شعور رواداری فراست اور برداشت کے ساتھ تمام مسائل و مشکلات کا حل دریافت ہو سکتا ہے لیکن اس میں نیک نیتی ہمدردی و خلوص اور افہام و تفہیم کی ضرورت ہو تی ہے ہمارا معاشرہ بتدریج انحطاط اور زوال کا شکار ہو رہا ہے بے راہ روی فحاشی خود غرضی اور انٹر نیٹ کے بڑ ھتے ہو ئے رحجان نے ہماری تہذیب و ثقافت اور دینی و قومی روایات کو پراگندہ کر کے رکھ دیا ہے اور اس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جسکی وجہ سے سو سائٹی میں کئی گھمبیر اور نہ حل ہو نے والے مسائل تیزی سے پید ہو رے ہیں جس کا سبب ہم سب اور ہماری معاشی ضرورتیں ہیں جسکا مداوا باہمی اشتراک عمل ہی کے ذریعے ممکن ہے ورنہ نوجوانوں نسل میں بڑ ھتا ہو ا بگاڑ بڑی خرابیوں کا باعث بنے گا او ر ہم دین مبین اور اسلاف کی روایات سے دور ھٹتے چلے جائیں گے –
خواتین نہ صرف ہمارے معاشرے کا اہم ترین جزو ہیں بلکہ وہ تمام معاملات میں شرا کت دار ہیں ان کو محض گھر کی باندی بنانے کے باعث ہی اکثر تنا زعات جنم لیتے ہیں جو پوری معاشرت کی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں خواتین کی بڑ ھتی ہو ئی آبادی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی ذمہ د اریوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے مردوں کو انہیں شریک حیا ت بنانے کے ساتھ ساتھ شریک کار بھی بنا نا چاہیے اسلام اور ملکی قوانین میں عورتوں کو تمام حقوق بلاشبہ حاصل ہیں لیکن وہ محض کتابوں اورفائلوں میں دبے ہو ئے ہیں ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہی بگاڑ پیدا ہو اہے عورت اور مرد گھر خاندان اور سوسائٹی کے دو اہم ستون ہیں اورگاڑی کے دو پہیے ہیں ان دونوں کو مل جل کہ اپنے خاندان اور معاشرے کی ترقی و تعمیر میں بھر پور کردار ادا کرنا ہے اس سے دونوں کے بوجھ میں کمی ہو گی اور معاشرتی زندگی میں آسانیاں پیدا ہو نگی بلکہ ان کی اس کوشش سے نہ صرف دونوں بلکہ پورے خاندان کی راحت اور آسودگی کا ماحو ل قائم ہو گا جس سے گھر و اقعتا جنت کا ٹکڑا بن سکتا ہے لیکن اگر یہ دونوں اپنی ان ذمہ داریوں میں بے اعتنائی بر تیں گے تو خو شحا ل گھرانہ بھی عذاب کی شکل اختیار کرے گا جسکے سبب پور ا ماحو ل آلودہ اور سو سائٹی عدم مساوات اور بدامنی کا شکار ہو گی اگر ماں بیو ی بہن اور بیٹی اپنے حصے کے فرائض و کردار اسلامی قوانین اور مروجہ اصولوں کے مطابق گزارے ۔ان مسائل کا ازخود حل نکل سکتا ہے خانگی تنا زعات کے حل میں ہو شمندی تدبر اور حکمت کی ضرورت ہے اگر غلط فہمی پیدا ہو تو اسکا فوری بہتر حل نکل سکتا ہے وانہ ایک غلط فہمی اور غلط بیانی خاندان میں کئی پیچیدہ مسائل کا موجب بن جاتی ہے جس کا بعض اوقات حل نا ممکن بن جاتا ہے اور گھر اجڑ جا تے ہیں –
عورت جہاں بہت بڑے مسائل کاحل ہے وہاں وہ کئی مسائل خود بھی پیدا کر تی ہے ماں بڑی چاہت سے اپنے بیٹے کے لیے چاند سی بہو لے کر آتی ہے جو اس کی نظروں میں دنیا کی خوبصورت اور سگھڑ لڑکی ہوتی ہے اس میں وہ ایسے گھن دیکھتی ہے جو کسی اور میں کہاں مگر جو نہی وہ لڑ کی شادی کے بعد اس کی بہو بنتی ہے تو اسے اسی انمول لڑکی میں کئی باتیں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں وہی چاند کا ٹکڑا اسے گر ین سے بھرا ہوا نظر آنے لگنا ہے پھر ماں کو یہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ یہ لڑکی اس سے بیٹا چھین لے گی حالانکہ اس بات کا حقیقت سے دور کا تعلق نہیں ہے ماں بیٹے کی وارث تو ہو تی ہے لیکن شادی کرکے وہ خود شریک لے کر آتی ہے اکیلے وارث کے ساتھ جب دوسرا شریک بنتا ہے تو پہلے وارث کو فراخد لی کے ساتھ کچھ حصے کی قربانی دینی پڑ تی ہے کیونکہ اب اس کا بیٹا گھر بار والا بن گیا ہے وہ اپنی شریک حیات سے باتیں بھی کرے گا اس کی باتیں مانے گا اور اس کی ضروریا ت کا قوام بھی ہو جاتا ہے یہ دیکھ کر ماں اپنی بہو سے حسد کرنا شروع کر دیتی ہے اوراپنی مر ضی و پسند سے لائی ہو ئی بہو کے خلاف سازشیں کرتی ہے بہو کو بیٹے سے دور کرنے کے لیے جادو ٹونہ سے بھی گریز نہیں کر تی –
دوسری طرف جب بہو نئے گھر میں آتی ہے تواسے محسو س ہو تا ہے کہ وہ اکیلی ہی اپنے شوہر کی وارث ہے جب وہ اپنے گھر میں تھی تو پورے گھر میں کھانا پکانا صفائی دھلائی کر تی تھی لیکن سسرال میں اسے یہ کام بوجھ لگتے ہیں وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ماں باپ کے گھر میں شہزادی بن کر رہتی تھی اور ہر کام اسکے اشارے سے ہو جا تا تھا نئے گھر میں اسے عیش و آرام میسر نہیں ہے لڑکے کی بہنیں بھی اپنی بھابھی کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو جاتی ہیں کہ ان کا بھائی کہیں ان کے ہاتھوں سے دور نہ ہو جائے عورتیں اگر خود کو قران و سنت کے تابع کر لیں تو نو ے فیصد مسائل خود بخود حل ہو جا تے ہیں اسلام میں بڑوں کا اخترام اور ان کی خدمت کی تاکید کی گی ہے لیکن یہ بھی حکم ہے کہ شادی کے بعد لڑکا اپنی عورت کو الگ گھر میں رکھے اور اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھے اسی وجہ سے اسے اپنی بیوی کے مقابلے میں فضیلت ملی ہو ئی ہے اور ان باتوں کو لڑکے کے والدین اوربہنوں کو بھی بہر صور ت تسلیم کرنا چاہیے-
اگر بہو اپنے سسر ااور ساس کی خدمت کرے کہ وہ ان کے ماں باپ کی جگہ ہیں اگروہ اپنے شوہر کے والدین کی خدمت کرے گی تو اسکی بھابی بھی اس کے ماں باپ کا خیال رکھے گی تو مسئلہ حل ہو جاتا ہے اکثر مائیں بہنیں یہی گلہ کر تی ہیں کہ اب ان کا بیٹا اور بھائی انکا پہلے کی طرح خیال نہیں رکھتا حالانکہ ایسا نہیں ہو تا بلکہ اسکی ذمہ داری بڑھ چکی ہو تی ہے شادی کے بعد وہ الگ خاندان کا شراکت وارہو جاتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک کو اس کے درجے کے مطابق عزت دے –
مگر اپنے گھر کے فیصلوں کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھے نہ کہ اپنے والدین او ربہنوں بھائیوں کے پا س رہنے دے جہاں گھر کے فیصلوں میں خاندان والے اثر انداز ہو نا شروع ہو جائیں تو وہ گھر سازشوں کی آما جگا ہ بن جاتا ہے عورت کو چاہئیے کہ وہ گھر کی حکمرانی اپنے پاس رکھے اور اپنے شوہر کی نگرانی میں سارے امور سر انجام دے مرد کو گھر سے باہر کے معاملات اپنی ضر ورت اور مرضی سے چلا نے چاہیے
اسلامی احکام کی رو سے عورت کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ لڑائی جھگڑے کے بجائے اس وقت خاموشی اختیار کرے لیکن ڈائیلاگ کے ذریعے اپنا احتجاج کرے خاوند سارے دن کی محنت و مشقت اور تھکاوٹ کے بعد شام کو تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے تو اسے گار گھر میں غضبناک بیوی کا سامنا کرنا بڑے تو پھر وہ گھر سے باہر کے تعلقات پر مجبور ہو جائے گا اور اسی روز سے گھر میں بگاڑ اور بد اعتمادی شروع ہو جاتی ہے غرض کہ گھر کے ماحول کو پراگندہ کرنے میں بیو ی کا اپنا زیادہ کردار ہو تا ہے گار وہ تحمل بر دباری اورفراخ دلی سے ان معاملات کو حل کرے تو وہ خود بھی سکھی رہے گی او گھر یلو ماحول بھی آلودہ نہیں ہو گا یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کی وجہ سے گھر گلستان اورمعاشرہ ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے عورتوں کی تعلیم و تربیت اور بہتر ماحول کی اشد ضرورت ہے – |