آرٹیکل

عورت کی آزادی تحریر : سیدہ ماریہ شاہ

تحریر : سیدہ ماریہ شاہ 

جب بھی عورت کی آزادی کی بات ہوتی ہے تو ہمارا معاشرہ کبھی بھی اس حق کو مثبت انداز میں نہیں لیتا اس طرح محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ایک فرد نے پورے معاشرے سے بغاوت کر دی ہواور ایک عورت کی آزادی کی بات اسے ایسی بےراہ روی کی طرف لے جائے گی جس کے بد اثرات سے نہ صرف اسکے اردگرد رہنے والے بلکہ پورا معاشرہ متاثر ہو گالیکن یہ سوچ اس معاشرے کی ہے جس کی روایت صرف ایک نہج پر ہی سوچنا ہےجو جمود کا شکار ہے جو نا تو اپنے اندر تبدیلی کی خواہش رکھتا ہے اور نا تبدیلی قبول کرتا ہےیہ وہ معاشرہ ہے جو محض اس بات پر دو انسانوں میں تفریق کرتا ہے کہایک وجود مرد ہے اور دوسرا وجود عورت ہےلیکن یہ دونوں وجود جس گود میں پرورش پاتے ہیں معذرت کے ساتھ کہوں گی وہ گود دعوی تو مساوی محبت کا کرتی ہے لیکن پرورش کرتے ہوئے اگر شعوری نہیں تو لاشعوری طور پہ ان اصولوں پہ پرورش کرتی ہے جیسے ایک وجود حاکم ہو اور دوسرا محکوم اس گود میں انجانے میں سہی اس ظلم اور ناانصافی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے کبھی کبھی وقت گزرنے پہ اس زیادتی کا مداوا بھی ممکن نہیں ہوتا  مگر کیوں ؟ کیونکہ اس محکوم وجود کو پروان چڑھاتے ہوئے آپ وہ تمام صلاحیتیں  جو قدرت نے اسے مساوی عطا کی تھیں  انہیں ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں  اور تربیت کے وہ اصول جو اس تعفن ذدہ معاشرے نے وضع کیئے ہیں  انہیں مدنظر رکھتے ہوئے اس پودے کو وہ درخت بنانے کی کوشش کرتے ہیں  جس کی چھائوں سب کو ملے  اور اس چھائوں میں سب کو سکوں بھی ملے  لیکن اس درخت کی بنیاد کس قدر کمزور ہے یہ کبھی سوچا ہے؟عورت کی پرورش کرتے ہوئے آپ نے اسے اول روز سے باور کروایا کہ وہ جسمانی  جذباتی  اور عقلی طور پہ وہ ایک حاکم وجود کی محتاج ہےاسے اسکی ذات پہ بھروسہ کرنا سیکھایا ہی نہیں  یہ تو بتایا کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں لیکن یہ سیکھانا کیوں بھول گئے کہ کانٹے کیسے نکالے گی اپنی زندگی سے اس پر ستم ظریفی یہ کہ زندگی کی ذمہ داریاں تو اس پہ ڈال دیں لیکن  یہ ذمہ داریاں ایک کمزور وجود نہیں اٹھا سکتا یہ کیوں بھول گئے ؟یاد کریں یہ وہی ظلم اور ناانصافی ہے جس کی بنیاد آپ نے خود رکھی تھی  وہ بنیاد کہیں اور نہیں اس کی سب سے محفوظ پناہ گاہ اس گود میں  رکھی گئی  جس کے دعوی محبت پر کسی کو شک نہیں  میں ایک عورت ہوں  وہ عورت جو آپکے بنائے گئے اصولوں پہ نہیں سوچتی  آپکے طے کیئے ہوئے راستے پہ نہیں چلتی  اس کے اندر اٹھتے سوال اسکا اٹھا سر اپنے وجود کو کھوجنے کی خواہش آپکے اندر  خطرے کی گھنٹی کیوں بجاتا ہے اگر عورت مطالبہ کرتی ہے کہ اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار وہ اپنے ہاتھ میں رکھے تو آپکو کیوں لگتا ہے کہ آپ عقل کل ہیں اور  وہ محدود عقل کی مالک  اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ آپ عقل کل ہیں ؟ اس کی زندگی میں کون رہے گا کون نہیں اس کا اختیار بھی وہ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہے تو؟ اس کی سوچ پہ آپ کی سوچ کی چھاپ نہ ہو سوچنے  سمجھنے اور  فیصلہ کرنے کی آزادی ہے  وہ نہ چاہے کہ اس کے وجود کا مالک صرف اس بنیاد پہ اس کی مرضی کے خلاف ہر رات اس کا ریپ نہ کرے کہ کاغذ کے ایک ٹکڑے کی صورت میں اس کے پاس اختیار ہے زندگی کی صورت میں جو خوبصورت تحفہ اسے ملا ہے وہ اس کا ہوتے ہوئے بھی اس کا نہیں  کب تک کرنا ہو گی اور یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ ایک ہی گود میں جب دو وجود پلیں گے تو ایک  کمزور ایک دوسرا قوی نہیں ہو گا یہ معاشرہ ان اٹھتے سوالات اور اٹھے سروں کو دباتا رہے گا کبھی تو اٹھتے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے اور اٹھے سر کی عزت بھی 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker