آرٹیکل
بھمبر کی سیاست اور تا ریخی پس منظر
آزادکشمیر کا ضلع بھمبر طویل تاریخ کا حامل شہر ہے، اس شہر کا ذکر سترہویں صدی میں چینی سکالر سوان زانگ کی کتاب میں بھی ملتا ہے۔بھمبر ریاست چبھال کا دارلحکومت رہا ہے، یہ ریاست 14 ویں صدی میں راجہ پرتاب چند کے بڑے بیٹے راجہ چب چندنے مقامی حکمران کی بیٹی سے شادی کے بعد قائم کی۔ بھمبر ضلع میں مقیم چب راجپوت قبیلہ راجہ چب چند کی نسل سے ہے جو بھمبر ریاست کا حکمران قبیلہ رہا ہے ، اس قبیلہ کے پہلے چب راجپوت جو مسلمان ہوئے انکا نام راجہ دھرم چند تھا جنکا اسلامی نام شاداب خان ہے جنہیں آج ہم بابا شادی شہید ؒ کے نام سے جانتے ہیں۔ چبھال ریاست کا آخری چپ حکمران راجہ سلطان خان تھے جنکا اقتدار 1800 سے 1840ء پر محیط تھا انکے اقتدار کے خاتمہ کے ساتھ ہی چبھال ریاست بھی ختم ہو گئی۔مغل حکمرانوں کے کشمیر کے دوروں کیلئے بھمبر وادی ہی گزرگاہ تھی اسی وجہ سے بھمبر کو باب کشمیر یعنی کشمیر کا دروازہ کہا جاتا ہے۔مغل بادشاہ جہانگیر کی کتاب تزک جہانگیری میں بھی بھمبر کا تذکرہ ملتا ہے۔بھمبر میں جاٹ اور راجپوت دو بڑے قبائل ہیں جبکہ دیگر بڑے قبائل میں گجر اور مغل قبائل شامل ہیں ، بھمبر کی مقامی زبان پنجابی اور پہاڑی کا امتزاج ہے۔بھمبر شہر اپنی جغرافیائی حیثیت کے ساتھ ساتھ یہاں کے نامور سپوتوں کی وجہ سے پاکستان بھر میں اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے مگر اس سب کے باوجود اس شہر کو وہ ترقی ستر سالوں میں نصیب نہ ہو سکی جو اسکا حق تھا اسکی بنیادی وجہ یہاں کا سیاسی مزاج ہے۔ بھمبر کی سیاست شروع سے تین خاندانوں کے گرد گھومتی ہے ان خاندانوں میں خان بہادر راجہ افضل خان مرحوم سابق گورنر جموں، چوہدری محمد یوسف(مرحوم) اور چوہدری صحبت علی (مرحوم ) سابق رکن اسمبلی ہیں، خان بہادر راجہ افضل خان کے فرزند راجہ ذوالقرنین سابق صدر آزادکشمیر ، سابق اسپیکر اسمبلی چوہدری انوار الحق چوہدری صحبت علی کے فرزند اور چوہدری یوسف کے فرزند سینئر وزیر آزادکشمیر چوہدری طارق فاروق ہیں۔ بھمبر کی سیاست آزادکشمیر کے دیگر علاقوں کی سیاست سے قدرے مختلف ہے اور یہاں پر سیاسی انتہاء پسندی بھی اپنے بام عروج پر پہنچ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انتخاب میں بہت کم لوگ ایک دھڑے سے دوسرے دھڑے کی جانب مائل ہو پاتے ہیں۔ بھمبر کی سیاست اب تک سینکڑوں زندگیاں نگل چکی ہے اور متعدد گھر اب ویران کھنڈر بن چکے ہیں کیونکہ ان گھروں کے باسی بھمبر کی انتہاء پسندانہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔یہاں پر حالات بگڑتے زیادہ دیر نہیں لگتی ، بھمبر کے عوام مہمان نواز، دلیری ، تعلیم ، مرتبے اور اصولوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں مگر ’’بدلہ‘‘ ان تمام خصوصیات پر حاوی نظر آتا ہے۔2006 کے انتخابات میں آزادکشمیر بھر سے مسلم کانفرنس بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی تاہم بھمبر میں راجہ ذوالقرنین جو مسلم کانفرنس میں تھے نے پیپلز مسلم لیگ کے امیدوار انوار الحق کی حمایت کی اور چوہدری انوار الحق کامیاب ہو گئے، ہارنے والے امیدوار چوہدری طارق فاروق کی شکست کے ذمہ دار ہونے کے باوجود راجہ ذوالقرنین کو صدر آزادکشمیر منتخب کر لیا گیا مگر ان پانچ سالوں میں وزیراعظم آزادکشمیر کو بھمبر میں نہیں آنے دیا گیا تاکہ بھمبر آمد پر وزیراعظم کوئی ترقیاتی کام کروا گئے تو اسکا فائدہ چوہدری طارق فاروق کو ہوگا ، 2011 کے انتخابات میں چوہدری طارق فاروق نے چوہدری انوار الحق کو شکست دی اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے مگر ان پانچ سالوں میں بھی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو بھمبر آنے سے روکا گیا اور اس حلقہ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ۔ اب جبکہ 2016 کے انتخابات میں بھمبر سے مسلم لیگ(ن) کو کامیابی ملی ہے اور چوہدری طارق فاروق یہاں سے جیت کر سینئر وزیر آزادکشمیر بنے ہیں تو ایک بار پھر مختلف لابیاںحلقہ کی ترقی کی راہوں میں کانٹے بکھیر رہی ہیں تاکہ حلقہ میں ترقیاتی کاموں کی رفتار سست رکھ کر حلقہ کو ماضی کی طرح پسماندہ رکھا جا سکے اور بھمبر کو ترقی سے دور رکھ کر روایتی سیاست کو اسی شان وشوکت کے ساتھ پروان چڑھایا جا سکے تاکہ اڑھائی بندے ادھر اور اڑھائی بندے ادھر اپنی اپنی سیاست پر ڈٹے رہیں اور کوئی تبدیلی نہ آجائے۔وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے گزشتہ ہفتے ضلع بھمبر کے تینوں حلقوں کا دورہ کیا اس موقع پر کسی بڑے ترقیاتی منصوبے کی تو پہلے ہی کوئی توقع نہیں کی جارہی تھی تاہم محکمانہ بریفنگ اور علاقائی مسائل کو سمجھنے کے بعد توقعات تھیں کہ وزیراعظم بھمبر کیلئے ترقیاتی پراجیکٹس کا جلد اعلان کر دیں گے جس کے بعد بھمبر کی تقدیر بدلنے کا آغاز ہوگا۔ وزیراعظم کا دورہ بھمبر ایک ناخوشگوار واقعہ کے باوجود عوامی حلقوں کے مطابق کامیاب رہا جس سہرا یقینا سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق، رکن اسمبلی وقار غنی نور، سابق امیدوار راجہ مقصود اور مسلم لیگ(ن) یوتھ ونگ کے چیئرمین انجینئر چوہدری رضوان انور کے سر جاتا ہے۔ چوہدری طارق فاروق نے بڑی محنت اور تگ و دو کے بعد بھمبر کو پاک چین اقتصادی راہداری میں بطور ایک صنعتی زون منظور کروا کر بلاشبہ بھمبر کی تقدیر بدلنے کا آغاز کر دیا ہے اور بھمبر کو جب کشادہ سڑکوں اور موٹر وے کے ذریعے جی ٹی روڈ اور موٹر وے کے ساتھ منسلک کیا جائے گا تو بھمبر نہ صرف ترقی کی نئی جہتوں کو چھوئے گا بلکہ یہاں کے نوجوانوں کو روزگار بھی مل سکے گا اور بھمبر کی زمینوں کی ویلیو بھی بڑھ کر کئی گناہ مہنگی ہو جائیگی مگر اس کے برعکس بھمبر میں اس عظیم الشان منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کچھ لابیاں متحرک ہیں۔وزیراعظم آزادکشمیر کے دورہ بھمبر کے آخری روز پیش آنے والے واقعہ کو باریک بینی سے سمجھنے کیلئے بھمبر کے سیاسی حالات کو سامنے رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔ بھمبر میں وزیراعظم کا راستہ روکنے کا اعلان ایک روز قبل کر دیا گیا تھا اور اخبارات میں اس کی سرخیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ وزیراعظم کا راستہ روکا جا سکتا ہے کیونکہ بھمبر کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہاں پر جو بات کہہ دی جاتی ہے اس پر عمل ہوتا ہے اور عوام اور سیاست دان پوری تیاری اور جانفشانی کیلئے اپنی کہی ہوئی بات کو پورا کرنے کیلئے زور لگا دیتے ہیں۔ ان حالات میں ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرتی اور ایسے کسی بھی واقعہ سے نمٹنے کیلئے پہلے سے حکمت عملی بنا لی جاتی مگر چونکہ آزادکشمیر حکومت نے میرپور، بھمبر اور کوٹلی پر مشتمل میرپور ڈویژن میں قابل ترین افسران مقرر کر رکھے ہیں جن سے کبھی خیر کی توقع ہی نہیں رکھی جا سکتے۔ میرپور میں ڈپٹی کمشنر عنصر یعقوب میرپور شہر کی اہم شخصیات تک کے ناموں سے ناواقف ہیں اگر صورتحال ایسی بن جائے کہ انہیں عوامی رائے عامہ ہموار کرنا پڑے تو انہیں سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ کونسا طریقہ اختیار کیا جائے۔ بھمبر میں تعینات ڈپٹی کمشنر سردار عدنان خورشید کچھ تجربہ کار ضرور ہیں مگر انکی بدقسمتی یا معاملہ فہمی کی صلاحیت کی کمی کہا جائے کہ وہ کوٹلی میں ڈپٹی کمشنر تھے تو نکیال میں وزیراعظم کا راستہ روکنے کا واقعہ پیش آیا اور چوہدری منشی نامی شہری جان کی بازی ہار گیا اب بھمبر میں ہیں تو یہاں وزیراعظم کا راستہ روکنے کا واقعہ پیش آگیا۔ ڈپٹی کمشنر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر سمجھے کہ وزیراعظم کا روٹ کلیئر نہیں ہے تو وہ وزیراعظم کو بھی وہاں سے گزرنے سے روک سکتا ہے مگر یہاں اس کے برعکس نہ صرف کم نفری کے ساتھ وزیراعظم کو عین اسی مقام سے گزارا گیا جہاں پر احتجاج ہو رہا تھا بلکہ ڈپٹی کمشنر مظاہرین کے ساتھ مذاکرات بھی نہیں کر سکے اور نہ ہی انہیں قائل کیا جاسکتا۔ راقم پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر عدنان خورشید کی جگہ چوہدری امجد اقبال ڈپٹی کمشنر بھمبر ہوتے تو مظاہرین کے سڑک پر آنے سے پہلے معاملات نمٹ چکے ہوتے۔جیسے میرپور ضلع کے دورہ کے موقع پر امکانات کے باوجودایس ایس پی میرپور اور اسسٹنٹ کمشنر میرپور نے تمام تر معاملات کو خوش اصلوبی سے نمٹا کر وزیراعظم کا دورہ کامیاب کروا دیا اسی طرح بھمبر میں بھی ایسی کوئی ناخوشگوار بات دیکھنے کو نہ ملتی۔پاک چین اقتصادی راہداری کے صنعتی زون کی زمین پر عوام علاقہ کے تحفظات اپنی جگہ ہونگے مگر بعض اوقات عوام کو 100 فیصد درست باتیں نہیں بتائی جاتیں بلکہ باتوں کو ’’ٹوسٹ‘‘ کر کے بتایا جاتا ہے تاکہ تنازعہ تخلیق ہو سکے اور ’’ہو ہا‘‘ کا ماحول بنایا جا سکے۔ بھمبر میں بھی راقم کے نزدیک اتنا گھمبیر معاملہ نہیں تھا کہ نوبت یہاں تک پہنچ سکتی مگر انتظامیہ کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے حالات قابو سے باہر نکل گئے۔ جن حضرات کا خیال ہے کہ وزیراعظم کے اپنے شہری احتجاج کر رہے تھے وزیراعظم کو باہر نکل کر ان سے بات کرنی چاہئے تھی انہیں بھمبر کے حالات کو مدنظر رکھنا چاہئے ۔