کھیل
شاہدآفریدی سے نارواسلوک کیوں؟
پاکستان کھیل کے میدان میں اپنا مقام آپ رکھتا ہے۔پاکستان نے بہت سی گیمز میں اپنا لوہا منوایا ہوا ہے ۔ایک وقت تھا کہ پاکستان ہاکی اور سکوائش کا بے تاج بادشاہ تھا۔ پاکستان کے سامنے بڑی سے بڑی ٹیم کھیلتے ہوئے گھبراتی تھی۔ سکوائش میں جہانگیر خان اور جان شیر خان نے کئی سال تک حکمرانی کی جو ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل بھی ہے۔ایک وقت تھا کہ اس کھیل میں تمام اعزازات پاکستان کے نام تھے۔پاکستان میں سمیع اللہ ، حسن سردار ، کلیم اللہ، شہبازاحمد،شاہد علی خان اور سہیل عباس جیسے نامور کھلاڑیوں نے جنم لیا اور اپنے ملک کا نام روشن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود ان کھلاڑیوں میں سے کوئی بھی کھلاڑی وہ مقام حاصل نہ کرسکا جتنا مقام پاکستان کے کرکٹرز کوملا۔پاکستان نے کرکٹ کی دنیا میں صرف ایک بار ورلڈ کپ اور ایک بار ٹی 20ورلڈ کپ جیتا ہے۔جبکہ ہاکی میں کئی بار ورلڈکپ ،ایشیا کپ اور اذلان شاہ کپ جیت چکا ہے مگرہاکی کے کھلاڑیوں کا اتنا مقام نہیں جتنا کرکٹرز کا ہے۔ ویسے بھی کرکٹ پوری دنیا میں مقبول ترین کھیل بنتا جارہا ہے اور اگر میں یہ کہوں کے فٹ بال کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والاکھیل کرکٹ ہوگیا ہے تو شاید یہ غلط بھی نہ ہو۔ پاکستان نے کرکٹ کی دنیا میں نامور کھلاڑیوں کو جنم دیا اور جنہوں نے اپنے اپنے ا دوار میں ملک کانام روشن کیا۔حنیف محمد، سرفرازنواز،وسیم باری ، جاوید میانداد ،عمران خان ،جلال الدین ، وسیم اکر م ، عبدالقادر، سعید انور، وقاریونس ،محمدیوسف،شعیب اختر ، شاہد آفریدی اوریونس خان جیسے نام آج بھی کرکٹ کے میدان میںسنہری لفظوں سے لکھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹرز کا بحران نہیں۔ الحمداللہ ہر دور میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے بیٹسمین اور باؤلر پیدا ہوئے مگر ان کو ضائع کرنے کا سہرا پی سی بی کے سر ہے۔ دوسرے ملکوں میں ان کے کرکٹ بورڈ کھلاڑی کونکھارتے ہیں اور ہمارا بورڈ اپنی انا اور من پسند کے لیے کھلاڑیوں کا ٹیلنٹ ضائع کردیتے ہیں۔جن کی مثال عمران نذیر، عبدالرزاق کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ مجھے معلوم ہیں ان کے مخالف لوگ میری اس بات پر کہہ سکتے ہیں کہ ان کو کتنا چانس دیا گیا مگریہ کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کو جواب میں اتنا ضرورکہوں گا کہ جتنا چانس بورڈ نے اپنے من پسند کرکٹرزکودیا اتنا ان کو نہیںملا۔ اگر چانس ملا بھی توان کو کھیلایا نہیں گیا۔ عمران فرحت، منصور رانا وہ کھلاڑی ہیں جن کو چانس نہیں چانسز دیے مگر یہ ہمیشہ ناکام رہے۔پاکستان کی کرکٹ کو تباہ کرنے میں پی سی بی کے علاوہ کسی کا کردار نہیں۔ پاکستان میں کئی کھلاڑی بال ٹمپرنگ، سٹے بازی میں ملوث پائے گئے مگر افسوس ہمارے بورڈ نے ان کے خلاف سختی کرنے کے بجائے ان کو دوبارہ ٹیم میں کھلا کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس باؤلر نے پہلی بار بال ٹمپرنگ کی اور جو کھلاڑی پہلی بار سٹے میں ملوث پایا گیا اس پرآئی سی سی سے پہلے خود ایکشن لیکر تاحیات کرکٹ کے دروازے بند کردیے جاتے تو دوبارہ کسی کی ہمت نہ ہوتی مگر یہاں تو ’’کتی چوراں نال رلی اے‘‘ ۔ جہاں میں نے نامور کھلاڑیوں کا نام لیا ادھر ہی ملک کی بدنامی کرانے والے بھی کم نہیں، سلمان بٹ، محمد عامر، محمد آصف، سلیم ملک جیسے لوگ بھی بدنامی کا باعٹ بنے ہیں۔بے شک ان میں سے کوئی بعد میں کلئیر بھی ہوا مگر سزایافتہ کا لیبل تو ضرور لگ گیا۔جاوید میانداد اور شاہد آفریدی میں جنگ چھڑی اس جنگ کے خاتمے کے لیے بہت لوگوں نے کوشش کی مگر وسیم اکرم کامیاب ہوئے کیونکہ بقول ان کے کہ ایک میرا استاد ہے اور دوسرا میرا شاگرد۔بے شک میں ان دونوں میں صلح ہوگئی مگران کی اس بیان بازی سے نہ صرف لوگوں کو بولنے کا موقع ملا بلکہ بیرون ممالک میں بدنامی کا باعث بھی بنے ہیں۔پچھلے دنوں آفریدی نے کہا کہ وہ اپنا آخری میچ کھیل کر ریٹائرمنٹ لینا چاہتا ہوں تو اس پر بھی بہت سے لوگوں کے تبصرے سنے۔ شہریار صاحب نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی کرکٹ کے ناخداؤوں نے کہا کہ ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا کہ وہ ایسے کرکٹ کے میدان سے رخصت ہوںتو میں یہاں پر ان لوگوں کو جواب دوں کہ کسی ملک میں ہو یا نہ ہو ہمارے پاکستان میں ایسا ہوا ہے۔ کرکٹ کے تباہ کاروں کو یاد کرادوں کہ انضمام الحق جو آج چیف سلیکٹرہیں اپنے ماضی میں جائیں اور یادکریں کہ وہ کیسے آخری میچ میں کیسے آنسو بہاتے ہوئے الوداع ہوئے تھے۔ جاوید میانداد کوبھی وہ دن نہیں بھولا ہوگاجب ان آخری میچ کھلا کر الوداع کیا گیاتھا۔بات الوداع کرنے کی نہیں حقیقت کچھ اور ہے پاکستان میں چند ایک سوا باقی کرکٹ کے ہیروز کو دھکے دیکر نکالاگیا ہے ۔ آفریدی سے خدشہ ہے کہ کہیں وہ اچھی اننگز نہ کھیل جائے اور عوام اس کو جانے نہ دے۔اسی خوف کی وجہ سے وہ اس کو باعزت الوداع نہیں کرنا چاہتے ۔ پی سی بی میں کونسا عہدے دار عزت سے جاتا ہے ایک کو نکالا دوسرے کو بیٹھایا پھر دوسرے کو بھگایا اور پچھلے کو بیٹھا دیا۔ یہ تو پی سی بی کی حالت زارہے۔ خدارا میاں نواز شریف صاحب آپ کرکٹ کے پیٹرن انچیف ہیں کچھ تو خیال کرو۔ کیوں ہمارے ہیروز کی تذلیل کروا رہے ہو؟ کھیل کو کھیل ہی رہنے دو اس کو رسہ گیر نہ بنانے دو۔ اب بھی وقت ہے پی سی بی کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں دو جو اس کے قابل ہیں ورنہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں کرکٹ ایک تماشہ بن کر رہ جائے گا۔ سینئر جونئیر کا احترام ختم ہوجائے گا۔ دعا ہے کہ اللہ میرے پاکستان کی کرکٹ کوتباہ ہونے سے بچائے