آرٹیکل
محسن پاکستان قائداعظم
پچیس دسمبرکوقائداعظم محمدعلی جناح کا 140واں یوم پیدائش ہے ۔قائداعظم پاکستان کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ آج جس دیس میں ہم سکھ کا سانس لے رہے ہیں یہ قائداعظم کی بدولت ہی معرض وجود میں آیا۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے ہمارے قائد نے دن رات ایک کردیا۔ قائد کی انتھک محنت و کوشش کی بدولت 14اگست 1947کو پاکستان قائم ہوا۔ قائداعظم نے یہ ملک اس لیے نہیں حاصل کیا تھا کہ وہ اس ملک پر اپنی حکمرانی قائم کرسکیں بلکہ اس لیے حاصل کیا کہ جہاں مسلمان اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزار سکیں۔ قائداعظم نے 11اگست1947کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’انصاف اور مساوات میرے رہنماء اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں‘‘۔قائدکے اس فرمان نے جہاں پاکستانیوں کو ایک روشن راہ دکھائی وہاں ان سے عظیم قوم بنانے میں مدد طلب کی مگر افسوس یہ دونوں رہنما اصول ’’انصاف‘‘ا ور ’’مساوت ‘‘پر بہت کم عمل ہورہا ہے۔ آج لوگ انصاف کے لیے دربہ در بھٹک رہے ہیں۔ عدالتیں مقدموں سے بھرپڑی ہیں۔ مظلوم چکی میں پس رہے ہیں اور ظالم پیسے کے بل پر عیاشی کررہے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے انصاف کو پیسے کی بنیاد پر اپنی باندی بنارکھا ہے۔ مساوات کا فرق تو پہلے ہی ختم ہوگیا ہے۔ لوگ مختلف ذاتوں، زبانوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مساوات کادرس صرف کتابوں تک محدود رہ گیا ہے۔ عملی طور پر مساوات کہیں نظر نہیں آرہا بلکہ ایک دوسرے کا حق مارکر خوشی سے جی رہے ہیں۔قیام پاکستان کا مقصد ہی یہ تھا کہ تمام مسلمان یکجا ہوکر اپنے مذہب کے مطابق اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔ پاکستان کی بنیاد لا اللہ الاللہ پر اسی لیے رکھی گئی تاکہ پوری دنیا کے لوگ دیکھ سکیں کہ اسلام کیسا مذہب ہے۔ اسلام قبول کرنے والے کس طرح اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول کے تابع گزارتے ہیں مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ہم نے اسلام کے نام پر ملک تو حاصل کرلیا مگراسلام کے اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہوئے۔آج دنیا میں کہیں کوئی دہشت گردی ہوجائے غیر مسلموں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس میں مسلمانوں کو پھنسائے۔غیر مسلم مسلمانوں کو آپس میں لڑانے میں مصروف ہیں۔قیام پاکستان کے بعد 30اکتوبر 1947 کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایاکہ ’’دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔‘‘ اس حقیقت سے ہمیں آج بھی انکار نہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی ۔ میرے رب کے کرم سے جتنا غیر مسلم اس پاکستان کو مٹانے کے در پر ہیں اس سے زیادہ یہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان مخالفین آج بھی دن میں پاکستان کی ہستی کو مٹانے کے خواب دن میں دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اپنی شر پسند حرکتوں سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مسلسل مداخلت کررہاہے۔ کبھی وہ بارڈر پر اشتعال پھیلارہاہے تو کبھی پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے ایجنٹ بھیج کر دہشت گردی کرارہا ہے۔ یہی نہیں اور بہت سے پاکستان کے مخالف ممالک پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر الحمداللہ آج پاکستان دنیا بھر میں ہر ملک کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 28دسمبر1947 کو کراچی میں قائداعظم نے فرمایا کہ ’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، یقینِ محکم اورتنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے۔‘‘ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ قائد نے اپنے وطن کے بارے میں جوکچھ کہا وہ ہرطرح سے درست ثابت ہوا۔ مسلمان واقعی ایک بہترین قوم ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت ہم ساری دنیا کے سامنے حج کے موقع پر پیش کرتے ہیں جہاں دنیا بھر سے آئے مسلمان خواہ وہ کسی زبان، رنگ، نسل یا ملک سے تعلق رکھتے ہوں مگر ان کا لباس اور الفاظ ایک ہوتے ہیں۔ ان کی زباں پر ایک ہی فقرہ ہوتا ہے کہ میں حاضرہوں اے اللہ میں حاضر ہوں۔اسلام کی خاطر ہر مسلمان اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔15جون 1948کو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ’’ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی سندھی ، بلوچی ، بنگالی ، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئیے۔‘‘ قائد نے درست فرمایا مگر افسوس اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہم لوگ پاکستانی سے زیادہ اب پنجابی ،سندھی،بلوچی اور پٹھان ہونے پر فخر کررہے ہیں۔اسی فخر نے بنگالی بھائیوں کو ہم سے جدا کروایا۔ اگر ہم قائدکے اس فرمان پر عمل پیرا ہوتے تو آج بنگلہ دیش نہ بنتا ۔ ہمارے سیاستدان آج بھی اپنی ذاتی انا کی خاطر ایسی آوازیں بلند کرارہے ہیں جوہمیں زیب نہیں دیتیں۔ہم لوگ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ پہلے پاکستانی اور اس کے بعد کچھ اور ہیں۔ خدارا کچھ تو خیال کریں جو ملک قائداعظم نے دنیا میں ایک مثال بنانے کے لیے حاصل کیا آج اس میں کس طرح کی ہوا کورنگ دیا جارہا ہے۔ ہمیں پہلے ایک مسلمان ہونے کے ناطے پھر پاکستانی ہونے کے ناطے سوچنا ہوگا کہ ہمارے قائدکے جو سنہری فرمودات ہیں ان پر ہم کتنا عمل کررہے ہیں۔ کیا قائداعظم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم اقتدار کی خاطر ملک کو دولخت کردیں؟ کیا لا اللہ الاللہ کی بنیاد اس لیے ہے کہ ہم ایک دوسرے کی حق تلفی کریں۔ کیا پاکستان کی بنیادوں میں لہو اس لیے ڈالا گیا کہ اسکے وجود میں آنے کے بعد بھائی بھائی کا خون پیئے گا۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا سوچئے اور سمجھئے کہ پاکستان کو لوٹنے والے لوٹ کر کھا گئے مگر آج بھی یہ بڑی آب وتاب سے کھڑا ہے۔ خدا کی نصرت اس کے ساتھ ہے۔ دشمن کے ہرحربے کے باوجود مسلمانوں کی تعداد میںتیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔جس کی مثال یہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں مسلمانوں کی تعداد دوسرے نمبر آگئی ہے۔آئیے آج قائد کی پیدائش پر وعدہ کریں کہ ہم سب پاکستان اور اسلام کی خاطر اپنی ذاتی مفاد کو پس پُشت ڈال کر ان کی ترقی کے لیے سب کچھ قربان کریں گے۔ انشا اللہ