آرٹیکل
محمد کبیر خان اور ڈاکٹر محمد صغیر خان کی تخلیقی خدمات
تحریر : سردار محمد طاہر تبسم
ریاست جموں و کشمیر اپنی تحریک آزادی ، تاریخ علم و ادب تہذیت و سکافت ، جانبازی اورصحافت میں یکتا و بے مثال ہے ۔ مئورخین نے اسے خطہ جنت نظیر فطری حسن کا شوکیس اور ایشاء کا سوٹزر لینڈ قرار دیا ہے ۔ یہاں کے باسیوں نے ادب و فن ، تحقیق و تخلیق ، شاعری ، مصوری ، خطاطی ،فنون لطیفہ اور ہر شعبہ زندگی میں بے پناہ شہرت پائی ہے ۔ ریاستی ادیبوں ، شاعروں ، دانشوروں اور صحافیوں کو تین ادوار میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا دور حضرت شاہ ہمدان سے غنی کاشمیری ، دوسرا دور حضرت علامہ محمد اقبال سے مہجور کاشمیری اور تیسرا دور مولانا چراچ حسن حسرت سے احمد شمیم تک ہے ۔ جبکہ اس کے بعد بھی بعض تخلیق کاروں اور دانشوروں نے اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں ۔ریاست میں پونچھ ادب و تحقیق ، شاعری و صحافت اور جانبازی و بہادری میں بڑا زر خیزخطہ ہے ۔ پونچھ کی علیحدہ حیثیت طویل عرصہ تک قائم رہی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1940ء میں ریاست پونچھ کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے جاگیر بنا دیا ۔ اسے شہیدوں ، غازیوں ، مجاہدوں اور بہادروں کی سر زمین بھی کہا جا تا ہے ۔ 1832ء میں سردار شمس خان ، سردار ملی خان ، سبز علی خان ، سردار مہدی خان اور ان کے بہادر ساتھیوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کے حملے کا منہ توڑ دیا ۔ سردار شمس خان کو شہید کر دیا اور ان کے معاونین اور ساتھیوں کی منگ کے مقام پر زندہ کھالیں کھچوائی گئیں جبکہ عظمتوں کے امین سردار بہادر علی خان شہید ، عظیم سپہ سالار کیپٹن حسین خان ، شہید کرنل شیر خان ، شہید کیپٹن افسر خان شہید ، سید خادم حسین شہیداور سینکڑوں نمایاں ریاستیں شخصیات کی قربانیوں اور خدمات تاریخ کی پیشانی کا جھومر ہیں ۔ مولانا ظفر علی خان نے پونچھ کے فطری حسن کو اس شعر میں خوب سمویا ہے۔
خطہ پونچھ کو کشمیر کے عارض کا تل کہیے
اگر کشمیر جاں ہے تو پونچھ کو اس کا دل کہیے
پونچھ روز اول سے عید آفرین اور تاریخ ساز لوگوں کا مسکن رہا ہے جنہوں نے زرب و حرب ، تاریخ و سیاست ، عدم و تحقیق اور تحقیق و تخلیق کے ساتھ ساتھ آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد میں ناموری پائی ۔ پونچھ میں ادب ودانش اور تخلیق کی تمام اصناف کی تاریخ کو بھی تین ادوار میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔پہلے دورمیں مولانا چراغ حسن حسرت سے ہو کر سردار گل احمد کوثر ، سردار اکرم عباسی ، کرشن چندر ، مولوی میر عالم خان ، ٹھاکر پونچھی ، شیخ نبی بخش نظامی ، ضیاء الحسن ضیا ء ، سراج الحسن سراج ، چوہدری دیا نند کپور، مفتی ضیاء الحق ، حافظ یعقوب ہاشمی ، مولانا غلام حیدر پھلیاں والے، پروفیسر عبدالعلیم صدیقی ، منشی میر اکبر عباسی ، تحسین جعفری ، سردار مختار خان ایڈووکیٹ ، قاضی سید احمد درد ، سید محمود اذان ، سلیم رفیقی ، پروفیسر جاوید عزیز ، عنایت حسین بھٹی ، پروفیسر طارق امین قاسمی ، پروفیسر ضیا ء اللہ شاہ ضیاء ، انعام اللہ جرال ، سردار گلاب خان ، سردار فیاض عباسی ، سردار اسحاق خان راجہ بشیر راٹھور ، عارف خان شاہد اور سردار عارف سدو زئی قابل ذکر ہیں جبکہ دوسرے عملی ، ادبی اور صحافتی دور میں پروفیسر سید بشیر حسین جعفری سے شروع ہو کر پروفیسر یعقوب شاھق ، پروفیسر الیف الدین ترابی ،راجہ فضل حسین راجوروی ،کے ڈی مانی ، پروفیسر ڈاکٹر منظور حسین ، مولانا محمد اسحاق مدنی مجید اصغر ، صابر حسین صابر، سردار محمد عبدالرشید ،سردار عاشق محمود سدو زئی ، عبدالحمید شاہین ، پروفیسر مقصود حسین جعفری ، معروف اختر عباسی ، ڈاکٹر سرور عباسی ، راجندر سنگھ ، سردار محمد طاہر تبسم ، پروفیسر جمیل کھٹانہ ، اسلم راجہ، پروفیسر فیاض خالد ، پروفیسر نظیر مسکین ، محمد کبیر خان ، ارشاد محمود ، پروفیسر سید مقصود حسین راہی ، پیر محمد سعید بخاری ایوب گلشن ، ظہیر جاوید ، جواد حسین جعفری ، ڈاکٹر ظفر حسین ، ظفر عبدالخالق وصی ، پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی ، ڈاکٹر سردار کلیم خان ، منیر زاہد ، پروفیسر غلام یٰسین خان ، ڈاکٹر علی اکبر الازہری ، میمونہ فدا ، سردار نعیم کشمیری اور بشیر خان سدو زئی معروف ہیں ، تیسرا دور ڈاکٹر محمد صغیر خان سے شروع ہو کر پروفیسر عبد ا لصبور ، بشارت محبوب ، شمیم ڈار ، مشتاق منہاس ، فیاض نقی ، اسرار ایوب ، نقی اشرف ، عابد صدیق ، سردار رشید حسن ، ڈاکٹر مقبول حسین طاہر ، سید حبیب حسین شاہ ایڈ ووکیٹ ، سردار قدیر خان ، اعجاز عباسی ، امتیاز احمد بٹ ، نیاز کشمیری ، راجہ کفیل احمد ، سردار زاہد تبسم ، بشیر عثمانی، سردار عاشق ، عابد خورشید ، بشارت عباسی ، نجیب الغفور ، سید خالد گردیزی ، سردار حمید ، ایس ایم عرفان طاہر ، ملک اعجاز قمر ، سہیل خان ، شفقت ضیاء ، الیاس جنڈالوی ، حنیف تبسم ، شکیل تبسم ، ڈاکٹر رمضان طاہر، عرفان کھٹانہ، نادرہ آرزو، اصغر حیات ، رحیم داد ساگر ، شمشاد نظامی، حامد کامران ، قمر رحیم ، شازیہ کیانی، رابعہ رزاق ، سردار عبدالرزاق ، سردار نظر محمد ، راشد یعقوب ، عمران عزیز آصف اشرف ، سردار امتیاز خان وسیم کامران اور دیگر کئی نوجوان قلم کار شامل ہیں۔ ان میں بعض کی کتب اور دیوان بھی شائع ہو چکے ہیں ۔پونچھ سے تعلق رکھنے والے نامور قومی قائدین میں سے بانی صدر آزاد کشمیر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی دو کتب متاع زندگی اور کشمیر ساگا شائع ہوئیں ۔ سابق صدر وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان کی درجن سے زائد اردو انگریزی میں کتب شائع ہو چکی ہیں۔ نمایاں شخصیات میں سردار محمد حبیب خان ، بر گیڈئر ریٹائرڈ محمد صادق خان ، غازی محمد امیر خان ، سردار غلام محمد خان ، ڈاکٹر سرور عباسی ، سردار مختار خان ایڈووکیٹ اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق خان کی کتب بھی موجود ہیں ۔ سیاسی قائدین میں سے عبدالرشید ترابی ، سردار عتیق احمد خان ، شاہین کوثر ڈار ، سردار شوکت علی کشمیری کی اہم موضوعات پر مضامین قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ان دانشوروں اور قلم کاروں کی تحریروں میں اعتدال پسندی کے ساتھ ساتھ مجاہدانہ سرشت ، تاریخی واقعات و مشاہدات اور ذاتی تجربات کی جھلک زیادہ نمایاں ہوتی ہے ۔ ان کے احساس قلم میں نیا جزبہ ، سہل پسندی اور خوبصورت انداز فکر کی فراوانی ہے جو اس زرخیز زمین کی تاثیر ہے۔ اس وقت مجھے اپنے آبائی گائوں پوٹھی مکوالاں ( وادی پرل) راولا کوٹ کے ممتاز صاحب طرز ادیب شاعر ہیں اور کئی کتب کے خالق دو نامور بھائیوں محمد کبیر خان ( بھگت کبیر ) اور ڈاکٹر محمد صغیر خان کی تخلیقی خدمات کا تذکرہ کر نا ہے ۔ جو ایک مدت سے میرے دل و دماغ کے دریچوں میں جاگزیں ہیںاور ان کی تخلیقات کے منفرد اور دلکش انداز تحریر نے مجھ سمیت ادب کے سبھی قارئین کو بے حد متاثر کیا ہے ۔ ان دونوں بھائیوں کی تحریروں اور خیالات کی کئی جہتیں اور مختلف پہلو ہیں دونوں بھائی پنج جہت ادیب ہیں اور یہ غیر معمولی صلاحیت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ محمد کبیر خان طنز و مزاح اور سنجیدہ فکری کے دھنی ہیں اور خوب لکھتے ہیں ۔ جبکہ ڈاکٹر محمد صغیر خان اپنی ماں بولی پہاڑی اور اردو دونوں کے ماسٹر ہیں ویسے وہ سکول ماسٹر نہیں بلکہ کالج کے پروفیسر ہیں اور وہ بھی اردو ادب کے۔ کبیر خان کے ساتھ میرے درینہ تعلقات ایک دہائی سے زائد عرصہ ہیں جب انہوں نے جمو ں و کشمیر ادبی اکیڈمی کی داغ بیل رکھی تھی ۔ دونوں بھائیوں کی علم و ادب میں اجارہ داری اپنی جگہ لیکن ابھی تک ان کی درجن سے زائد تخلیقاتی کتب منع شعور پر آکر تہلکہ پیدا کر چکی ہیں۔ دونوں کی بیگمات بھی پروفیسر ہیں اور کبیر خان کی اہلیہ محترمہ پروفیسر مرحب قاسمی تو ملک کی معروف ادیبہ ہیں۔ پاکستان کے نامور ادباء ، شعراء اور دانشور حضرات میری ادبی تنظیم ینگ منیز لٹریری ایسوسی ایشن ( یملا) مظفر آباد کی دعوت پر ممتاز کشمیری ناول نگا ر شمس کاشمیری "سری نگر 75میل "کی تقریب رونمائی میں شرکت کیلئے سنٹرل پریس کلب مظفر آباد تشریف لائے ان میں استا ذی محترم سید ضمیرجعفری ، عطا الحق قاسمی ، امجد اسلام امجد ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، جان کشمیری ، زاہد مسعود اور صاحب کتاب ثمر کاشمیری شامل تھے جبکہ یملہ کہ ڈاکٹر نثار حمدانی ، خالد جمیل ، مظفر احمد ظفر ، طاہر مسعود اور فاروق احمد مغل اور راقم بھی مقررین میں شامل تھے اس کتاب کی دوسری تقریب راولاکوٹ ڈگری کالج میں ہوئی جس کا اہتمام محمد کبیر خان کی جمو ں و کشمیر ادبی اکیڈمی نے کیا تھا جس کے انعقاد میں اورنگزیب پروانہ ، ڈاکٹر طاہر خان بھی پیش پیش تھے ۔ یہاں سے کبیر خان کی ادبی پرواز شروع ہوئی کچھ عرصہ میں ابو ظہبی لینڈ ہوئی اور اب ہر جگہ ان کے نشانے پر ہے ۔ کبیر خان کی کتب نے ملک بھر اور ریاست کے دونوں اطراف کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک میں علم و ادب کی تشنگی رکھنے والوں میں بڑی دھوم مچائی ۔ ان کتب پر نامور اہل قلم اور ناقدین نے خوبصورت اور زور دار تبصرے کیے ۔ ان کا جاندار انداز تحریر شگفتگی مزاح اور فکر و عمل سے آراستہ و پیراستہ ہے جس میں فطری جوہر ، علم و ادب اور افکار کی آمیزش اور حسن مزاح کا بھر پور تڑکا بھی ہے ۔ جو اس میں ایسا تنوع اور امتزاج کہ پڑھنے والا اس کے چسکے سے لطف و اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ کبیر خان کے ہر رنگ تحریر میں رنگ اور مسحور خوشبو بسی ہوئی ہے ۔ جن میں احساسات و جذبات اور خیالات کی گہرائی و گیرائی اور مشاہدے کے جوہر توانائی کے ساتھ موجود ہے ۔ اس کے دیکھنے اور لکھنے کا انداز بڑا کشادہ اور پر لطف ہے کہ اس سے داخلی و خارجی مناظر کا پوری طرح اظہار دکھائی دیتا ہے ۔ اس کی شگفتہ تحریروں میں اپنی سر زمین سے ان مٹ وابستگی کا اظہار نمایاں ہوتا ہے ۔ جس میں کشمیر اور اہل کشمیر کے ساتھ ان کی وارفتگی اور والہانہ انس ، مزاحمتی ادب و شاعری اور تحریکی تخلیق کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ جس سے دل و جان معطر اور قلب و ایقان پر عزم ہوتے ہیں ان کے تخلیقی ادب پارے ملک و بیرون ملک کے اہم ادبی جرائد میں آب و تاب سے شائع ہوتے ہیں ان کی فوجی انجینئرنگ اس میں بھی نمایاں نظر آتی ہے ۔ وہ ایسا ادب نواز فوجی ہے کہ جس کے اسلاف نے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت اور آزاد کشمیر کی جدو جہد میں مثالی اور ناقابل فراموش کردار ادا کیا اور موصوف بھی اسی ڈگر پر حصہ ڈالنے پر مصر نظر آتے ہیں۔ محمد کبیر خان زندگی کی برق رفتاری میں بھی قلم کے وقار کا پاسدار ہے اپنے مستقل پتہ سے لاپتہ یہ قلم کار ربع صدی سے ابو ظہبی میں پیشہ سپہ گری کا فوجی طیاروں کا انجینئر ہے جس کا جسم سمندر پار اور دل وطن مالوف کی پگڈ نڈیوں میں گم رہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ خالی دفاغ لیے پھرتا ہوں لیکن یہ بات درست نہیں ہے ۔ کیونکہ جب یہ دماغ خالی ہو گیا تو قلم کے ہتھیار اور نوکری دونوں سے پیدل ہو سکتا ہے ۔ رات کی رانی کا دلدادہ کبیر خان ، فسانہ ،سفر نامہ،ناول اور کالم نگاری کے میدانوں میںگھوڑے نہیںبلکہ ــطیارے دوڑاتا نظر آتاہے۔اسکی شائع شدہ تصانیف میں ہمہ یاراں دشت کشمیر کا تاریک جغرافیہ، چاند چہرے ، سفر سفر ، سفر بے سیار ، شاکس آفٹر شاکس ، پہاڑ لوگ، اک زرا افغانستان تک ، منہ شگافیاں ، تیرے رستے میں روشنی ہو، باپ بیٹی شامل ہیں جبکہ وہ اپنے بیٹے لاریب خان کو بھی اتنی بہترین تصنیف قرار دیتا ہے جو آج کل لاہور میں چارٹر ڈ اکائونٹینسی کا طالب علم ہے ، ان کی کہیں کتب زیر تکمیل اور زیر طبع ہیں جن میں وزیٹنگ کارڈز ، سونامی کے پیچھے ، بستی بسنا کھیل نہیں ، ایک دفعہ کا ذکر ہے ، پہاڑ لوگ کی دوسری اور تیسری جلدیں بھی شامل ہیں ۔ کبیر خان کو حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے صدارتی ایوارڈ جموں و کشمیر ادبی اکیڈمی کا ایوارڈ اور شیخ ایاز سندھی ایوارڈ مل چکے ہیں لیکن ابھی مشق سخن جاری و ساری ہے اور امید ہے کہ یہ ہر سال ایک نئی تخلیق برآمد کر نے کی منصوبہ بندی کے ساتھ عزم مسمم لیے ہوئے ہیں ۔ کبیر خان کے برادر صغیر پروفیسر ڈاکٹر محمد صغیر خان نے گریجوایشن تک تعلیم راولاکوٹ سے حاصل کی ، کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اردو ادب، ایل ایل بی اور ڈاکٹریٹ کی امتیازی ڈگریاں حاصل کیں ان کے مکالہ کا عنوان کشمیر کی جدوجہد آزادی اور اردو ادب تھا اور بر صغیر کے نامور دانشور ماہر تعلیم و نقاد پروفیسر سحر انصاری کی نگرانی میں کام کرنے کا اعزاز حاصل کیا موصوف آج کل محکمہ تعلیم آزاد کشمیر سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر صغیر خان نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم فل اور پی ایچ ی کی نصاب سازی میں بڑی محنت و ریاضت کی ہے ۔ ان کی ادبی علمی اور تحقیقی تحریرں صحیفہ ، فنون، ادیبات تخلیق ، لو ح ادب ، اخبار اردو، آفاق ، الحمرا، پہچان ، ادب دوست اور تہذیب میںتواتر کے ساتھ شائع ہو تی رہتی ہیں۔ ان کی شائع شدہ کتب میں پہاڑی لوک گیت، پونچھ کی تہذیب و ثقافت ، پہاڑی کہاوتیں، پہاڑی لوک کہانیاں، کھٹی بٹی ( پہاڑی افسانے) دیوا بلنارہ( پہاڑی شاعری) چیدہ چیدہ ( مضامین و خاکے) اور دھند میں لپٹا سفرنا مہ ، یوں شامل ہیں جبکہ کئی کتابیں زیر تکمیل ہیں ۔ جس بر رفتاری اور معیار کے ساتھ یہ دونوں بھائی تخلیقی اور ادبی سفر داری رکھے ہوئے ہیں لگتا ہے کہ کچھ عرصے بعد اس میدان میں انکا مقابلہ مشکل ہو جائے گا۔ ادب و تخلیق کے میدان میں دونوں بھائیوں نے انت مچا رکھی ہے اور ہمیں اس پر کوئی پشیمانی نہیں بلکہ بیحد طمانیت اور خوشی ہے۔ اور توقع ہے کہ پونچھ کی دھرتی کے یہ دو آب دار جو ہر نایاب قومی افق پر بھی درخشاں ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں جس کے باعث ہم سب کی عزت و پہچان میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور نئے لکھنے والوں کو بھی کئی راہیں ملی ہیں۔
اللہ کرے زور ِ قلم اور زیادہ
میں اپنی یہ تحریر پونچھ کی وادی پرل پر لکھے گئے ان خوبصورت اشعار سے ختم کر تا ہوں ۔
یہ خود رو لالہ و گل سے مزین خوش نما وادی یہ فطرت کے مناظر کا نشیمن فضا وادی
عروس نو بہار ناز کے جلوئوں کا کاشانہ فروغ حسن رنگا رنگ سے رنگ آشنا وادی