آرٹیکل
امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیغامِ تسلیم و رضا
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے )سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
اللہ تعالیٰ کا بے مثل شاہکار انسان کی دوستی خواہ دوسرے انسان سے ہو یا کسی قریبی سے ۔اس کا عام مزاج کچھ اس طرح ہوتا ہے ۔’’جب ہمارے یہاں آئو گے تو کیا لائو گے اور جب ہم تمہارے یہاں جائیں گے تو کیا کھلائو گے ۔‘‘ہر چیز کی دوستی میں پہلے اپنا فائدہ تصور کیا جاتا ہے بلکہ اپنا فائدہ ہی دیکھا جاتا ہے ۔دوستی دوسروں کو فائدہ پہنچانے یا دستور کو باقی رکھنے کے لئے نہیں کی جاتی ۔حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے عرض کیا ۔ حضور! آج کل دوست نہیں ملتے ۔آپ نے فرمایا کیا اس لئے دوست نہیں ملتے کہ تم انکی حمایت و غمخواری کرو؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کو بھی وقت کے اس عام مزاج سے شکایت تھی ۔آج اسلام سے دوستی کرنے والے دستورِ اسلام کی حمایت کا دم بھرنے والوں کی اسلام دوستی کی عام روش بھی ایسی ہی ہے اور یہی جذبہ ہے جو مسلمانوں کے منہ سے اس قسم کی آواز نکلواتا ہے ۔اگر مسلمان خدا کی بر گزیدہ اور محبوب مخلوق ہے ۔اگر اسلام رب العالمین کا پسندیدہ مذہب ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان دنیا کے مصیبت زدوں میں سب سے زیادہ مظلوم اور درماندہ ہیں ۔مذکورہ بالا جملوں میں سے خود غرضی کی بو صاف محسوس کی جا سکتی ہے حالانکہ اسلام دوستی کا ایک بہت ہی بلند اور وقیع مقصد یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسلام ایک حقیقت ابدی ہے ۔اسلام ایک خالص سچائی ہے ۔اسلام انسان کی فطری حالت ہے اور فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی شہادت دی جائے ۔سچائی کو اجاگر کرنا ہی سب سے اہم مقصد حیات ہے اور حقیقت کے چہرے سے نقاب اٹھادینا ہی سب سے بڑی عبادت ہے ۔اسی لئے اسلام کی صداقت کی بنا پر اسکا جاری اور نافذ کرنا ہی اسکی دوستی کا سب سے بڑا مقصد ہے اور قرآن عظیم نے بھی ہر اسلام دوست کا یہی امتیازی کارنامہ بتایا ہے ۔اے مسلمانو!تمہارا یہی امتیازی نشان ہے کہ تم اسلام کے قیام و نفاذ کی کوشش میں ہر دم لگے رہو ۔اور حق یہ ہے کہ جس دن مسلمان نے اسلام کو اس نظریے کے ساتھ اپنایا تو دنیا کے سارے مصائب کے بارے میں اس کا انداز فکر بدل جائے گا ۔عمل کی راہیں متغیر ہو جائیں گی اور اس کی ہر حرکت و سکون میں ایک تازہ روح دوڑ جائے گی ۔اور وہ سچ مچ اس راز کو پالے گا کہ زخم کھا کر رونا بھی ٹھیک ہے ۔لیکن مسکرانے میں کچھ اور ہی لذت ہے ۔گالی کا جواب گالی سے بھی دیا جا سکتا ہے لیکن دعا دینے کی چاشنی کا کیا کہنا اور وہ یہ سمجھ جائے گا کہ مال جمع کرنا اور اس سے کسی کے احسان کا بدلہ چکانا بلا شبہ اچھا کام ہے ۔لیکن بلا غرض دیگر مسائل کے لئے دعا ئے خیر کرنے میں جو کیف ہے وہ دعا لینے میں کہاں۔ حتیٰ کہ وہ نقد جان دے کر بھی سوچے گا کہ چلو منافع ہی رہا ۔
سکندر لوٹ کر کبھی خوش نہیں دولت زمانے کی
قلندر مایہ ہستی لٹا کر رقص کرتا ہے
کیونکہ یہ حقیقت سامنے آجائیگی کہ جب بھی انسان نے کوئی خود ساختہ مادی انقلاب لانا چاہا کسی ایک مملکت کا نقشہ بدلنا چاہا ، تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ نیزوں کی انیاں چمکنے لگیں قسم قسم کے بموں سے دھرتی کا کلیجہ پاش پاش ہونے لگا بلکہ دنیا کے نقشے پر نئی لکیریں کھینچنے سے پہلے سرحُر پر خون کے سمندر سے حدبندی کرنی پڑتی ہے ۔بالفاظ دیگر مادی آزادی کا سورج اپنے پر ستاروں کے خونی سمندر سے ہی سراُٹھار کر مسکراتا ہے اور شہنشاہ حریت اپنے پجاریوں کی لاش پر اپنا تخت عظمت سے بچھاتا ہے ۔ پھر جب دنیا کے مادی انقلابوں کا یہ حال ہے ۔فانی دستور کی دوستی اتنی قربانی چاہتی ہے تو اسلام کا ئنات کی جو ہستی کے داغدار چہروں کو صاف کرنا چاہتا ہے ۔ بلکہ اسلام ایک نیا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے ۔ایک حیات بخش انقلاب لانا چاہتا ہے ۔زندگی کی فطری قدروں کو اُبھارنا چاہتا ہے اور ایک محکم اور بے مثال زندگی کا پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے ۔پس اسلام کا حمایتی اور اس کا دوست بھی جب اسلام دوستی کے اس بلند مقصد کے ماتحت اس کے نفاذ و قیام کا عمل لے کر اٹھے گا تو کیا کچھ حوادثات کا سامنا ناکرنا پڑے گا ۔تلواروں کی بجلیاں نہ کوندیں گی، برچھیوں کے ستارے نہ چمکیں گے ۔حوادثات کی موجیں نہ بلند ہوں گی ، بغاوت کی آندھیاں نہ آئیں گی اور حق تو یہ ہے کہ پرستار ان اسلام کے خلاف طوفان کا زیادہ امکان اور حوادثات کا زیادہ خطرہ ہے کیونکہ دنیا کا ہر نظام اپنے ماحول کے ساتھ سازگاری کر سکتا ہے ارد گرد سے صلح کر سکتا ہے لیکن اسلام میں زمانہ کے ساتھ سازگاری کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اسلام ماحول کا پابند نہیں یہ اپنا ماحول خود پیدا کرتا ہے ۔ خواہ اس کی قیمت کچھ ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔
بنا لیتا ہے اکثر خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرۃً آزاد ہوتا ہے
دستور کائنات ہے جو اسلام کا جتنا ہی حامی ہو گا وہ اتنا ہی مبتلائے مصائب ہو گا ۔اسے ہر فر سودہ نظام سے ٹکر لینی ہو گی ۔مخالف تھپڑوں سے اطمینان ہو گا ۔ ہادیوںمیں سب سے مکرم انبیاء کرام جو سب سے زیادہ مبتلائے مصائب ۔پھر اسی تناسب سے جو یقینا بڑا حمایتی ہو گا۔ اسی مقدار سے مبتلائے آلام ہو گا۔ خود اسلام نے بھی جا بجا اپنے پرستاروں دوستوں اور حمایتوں ، محبت کا دم بھرنے والوں سے اسی قسم کا مطالبہ کیا ہے اورتنبیہہ بھی کی ہے کہ ایمان والے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف کلمہ پڑھ لینے سے اور اقرار کر لینے سے انکی نجات ہو جائیگی ۔وہ آزمائے نہ جائینگے ۔ہم ضرور انکو خوف، بھوک اور مال کے نقصان نیز جانی اور اعزازی تکلیفوں کے ذریعہ آزمائیں گے ۔یہ تو دستور رہا ہے ۔گذشتہ دین داروں کو بھی مرض فقیری اور دشمنوں کی عداوت نے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور وہ خوب جھنجھوڑے گئے تھے ،لہٰذاتم بھی انہیں منازل سے گزر کر جنت پہنچ سکتے ہو۔پس یہ امر خوب روشن ہو گیا کہ اسلام لانے کے بعد سمجھنا چاہیے کہ مصائب کا خاتمہ ہو گیا اور اب ہمیں دنیا ہی میں جنت دے دی گئی ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ مزید شدائد و مخالفت کے طوفان کو آزادی دے دی گئی اور گویا مصائب کو ایک طرح کا چیلنج کیا گیا ۔
یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
ہاں اسلام سے پہلے انسان بزدل تھا ۔مصائب کے مقابلہ کی اس میں تاب نہ تھی اور اب اسلام نے اسے طوفانوں سے کھیلنے کا عادی بنادیا ہے اور اسے حوادثات سے دو چار ہونے میں مزہ آتا ہے ۔
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
جب ہم اسلام اور اسکے سچے حمایتوں کے متذ کرہ بالا مؤقف کا تصور کرتے ہیں تو ہمیں اسلام کی تاریخ کے اس خونی ورق پر کوئی اچنبھا نہیں ہو تا جس کی روشنائی کے لئے خاندان رسالت کا خون نچوڑا گیا اور کربلا کی زمین منتخب کی گئی ۔اللہ اللہ !صبح کربلا کا یہ ہوشربا نظارہ ۔جس گلے کو پیغمبر اسلام ﷺ کے لب فرط محبت میں چومتے اس کو زبان خنجر نہایت بے باکی سے چاٹے ۔جس لب کو حضرت محمد عربی ﷺ بوسہ دیں عبید اللہ بن زیاد کی چھری کو اس کے ساتھ گستاخی کی جرأت ہو ۔جو رسول اللہ ﷺ کے کاندھوں پر سوار ہو اور نبی رحمت ﷺاس ادائے دلبری کی داد دیں ۔’’نعم الراکب‘‘ بڑا پیارا سوار ہے ۔اسی جسم کو گھوڑے روندیں ۔بلکہ تین شبانہ روزبے گور و کفن پڑا رہے جس کی عصمت کے دروازے پر فرشتے اجازت لے کر قدم رکھیں انہیں قیدی بنایا جائے ۔ اتنا بڑا ظلم وقت کے سب سے مقدس انسان اور ایک سچے مسلمان بلکہ بانی اسلام ﷺ کے جگر گوشہ کے ساتھ جو تمام کرامتوں کا مستحق ،تمام آسائشوں کا ہل اور جائز عیش و عشرت کے لائق ہر طرح ہو۔لیکن اسلام دوستی کہتی ہے ایسا ہونا ہی تھا ۔اگر وادی نینواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ صحیح و سالم لوٹ آتا تو اسلام دوستی کا کارواں لٹ جاتا ۔اگر امام مظلوم دس محرم 61ھ کی شام تک زندہ رہتے تو اسلام کی محبت مر جاتی اور خود شجر اسلام کی ڈالیاں سو کھ جاتیں۔ پتیاں جھڑ جاتیں اور پھول مسکرانا چھوڑ دیتے ۔اسی لئے کربلا کا قائم ہونا ضروری تھا ۔اور یہ سچ ہی تو ہے کہ معرکہ کربلا کے ایک ایک واقعہ سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اسلامی دستور سے وفاداری کا مقصد دنیا میں اپنا ذاتی فائدہ نہ تھا بلکہ اسلام کا نفاذ اور اس کی حمایت ہی انکی اسلام دوستی کی اصل غایت تھی ۔اس لئے تمام مصائب کو آپ نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔چنانچہ جب آپ نے دیکھا کہ ایک زانی اور شرابی حدود اللہ کو بری طرح تہس نہس کر رہا ہے ۔اور ساتھ ہی ساتھ قیصر و کسریٰ کی ملعون و مکروہ آمریت کا مہلک انجکشن بھی برابر خلافت اسلامیہ کے جسم میں داخل کر رہا ہے تو سب سے پہلے آپ ہیں جنہوں نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور باوجود یکہ حضرت عبد اللہ بن حضرت عباس بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن زبیر اور تمام بہی خواہوں نے آپ کو کوفہ جانے سے روکا اور طرح طرح کے اندیشے آپ کے سامنے رکھے لیکن جس سردار اسلام کے دل میں اسلام دوستی کا مقصد صرف حمایت اسلام ہو وہ خطرات کو خاطر میں کیسے لاتا ۔ خصوصاً جب کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ ظلم کی اس آندھی کے مقابلہ میں تمام سر جھک گئے ہیں ۔اسلام کی اکثریت نے جبراً قہراًیا برضا و رغبت اپنی مہار ایک ظالم کو سونپ دی ہے ۔زبانوں نے آمنا و صدقنا کہا اور ہاتھوں نے بیعت کی ۔کچھ جانچ رہے ہیں خاموش ہیں اور وقت کا انتطار کر رہے ہیں ۔اس حال میں ایک ٹمٹماتی ہوئی روشنی اہل کوفہ کی طرف سے نظر آئی ۔لیکن جب آپ نے اعلان حق فرمایا تو اس وقت بجلیاں کوندی ہیں اور تارے ٹوٹے ہیں۔ آ ج طاغوتی طاقتیں میرے خلاف گھٹابن کر اُٹھیں گی اور بادل بن کر چھائیں گی اور مجھے زخم کھا کر مسکرانا ہی پڑے گا اور یہ تو اس کوچہ کا پرانا دستور ہے
عشرت قتل گہہ تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے تلوار کا عریاں ہونا
اور کربلا کے میدان میں وہی ہوا ۔آسمان نے آگ برسانی شروع کی ۔زمین لاوا اگلنے لگی ۔بھوک نے اِرادے کو شکست دینی چاہی ۔پیاس نے ولولوں کو دبانا چاہا ۔اور بد بخت شامیوں کی فوج نے ہر طرف سے نرغہ کر لیا ۔تلواریں سونت لی گئیں ۔اور ہر طرح کوشش کی گئی کہ کسی طرح حضرت امام عالیٰ مقام رضی اللہ عنہ کے پائے ثبات و قرار میں لغزش آجائے ۔مگر اس سارے طوفان کے کرب و بلا میں وہ صبر و استقامت کا پہاڑ اپنی جگہ مسکراتا رہا ۔زخم کھاتا رہا ۔تکلیف اٹھا تا رہا اور دعا دیتا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔حضرت قاسم سا نو جوان بڑے بھائی کی یادگار سامنے ہی تلوار کھا کر ’’یا عماہ‘‘ اے چچا جان کہتا ہوا گرتا ہے ۔آپ قریب پر پہنچے تو بھتیجے نے آنکھ کھولی اور کہا چچا جان پانی اس سے زیادہ جگر گداز سانحہ کیا ہو گا ۔دم توڑتے ہوئے بھتیجے کو پانی نہیں پلاسکتے ۔مگر کیا اما م مظلوم نے فریاد کی؟نہیں نہیں بلکہ جرأت و استقلال دیکھو ۔ فرمایا جان برادر! اب آبِ کوثر سے سیراب ہو نا اور انہیں اس طرح اٹھالائے کہ سر کندھے پر اور پیر زمین پر گھسٹ رہے تھے ۔اس سے فرصت ملی کہ دوسرا قیامت خیز منظر سامنے تھا ۔چھ ماہ کی ننھی جان ’’علی اصغر‘‘ شدت پیاس سے زبان باہر نکالے ایڑیاں رگڑ رہے تھے اس خیال سے کہ شاید اس بے گناہ کی بیکسی پر ظالموں کو رحم آئے ۔یزیدی فوج کے سامنے لے گئے اور انکی حالت زاردکھا کر پانی طلب فرمایا ۔جواب میں ایک سنسسا تا ہوا تیر آیا ۔بچے کے گلے کو پار کرتا ہوا امام کے بازو میں پیوست ہو گیا ۔اللہ اللہ رے مصائب جھیلنے کی جرأت !بے جان پھول واپس لا کر ماں کی گود میں ڈال دیا اور فرمایا و! لو خدا نے ہماری چھوٹی قربانی بھی قبول کر لی ۔اب علی اصغر کو کبھی پیاس نہ لگے گی ۔بھائی بھتیجوں اور بھانجوں کے زخم ہی کیا کم تھے کہ یہ ایک مزید المناک داغ بھی اٹھانا پڑا۔ 18برس کا کڑیل نوجوان ’’علی اکبر‘‘ ہزاروں دشمنوں سے الجھتا ہوا نظر آرہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بد نصیب کی برچھی سینہ سے پار ہو جاتی ہے آپ دوڑ ے اور مارتے کاٹتے جب قریب پہنچے تو نعش مبارک کے ٹکڑے اُڑ چکے تھے ۔نعش کی طرف رخ کر کے فرمایا! جان پدر مجھ سے پہلے ہی رخصت ہو گئے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے عرض کی ۔مولیٰ تو میرے صبر و ضبط کا انتہائی امتحان لے رہا ہے لیکن میں تیرے رسولﷺ کا ہی نواسہ ہوں ۔اس ابتلا میں انشاء اللہ میرے قدموں کو لغزش نہ ہو گی ۔اب آپ کے خاک و خوں میں تڑپنے کا بھی وقت آہی گیا۔ جن تلواروں کی پیاس پورے خاندان رسالت کا خو ن چاٹ کر بھی نہ بجھی تھی ،وہ اپنے آخری گھونٹ کے لئے اور بے قرار ہو گئی ۔اور جب آپ کی طرف سے کوئی ایسا بھی نہ رہ گیا کہ آپ کی طرف سے ایک پتھر بھی پھینک سکے ۔اب کتنا دلدوزنظارہ تھا ۔ آپ درمیان میں کھڑے اور بد بختوں نے ہر طرف سے آپ کو نشانہ بنا لیا تھا ۔اسی حال میں ایک تیر آپ کی پیشانی انور پر لگا ۔ سارا جسم پہلے ہی لہو میں تر بتر تھا ۔اب آپ نے تیر پیشانی سے کھینچا تو خون کا فوارہ پھوٹ پڑا ۔ اس عالم میں بھی آپ کامل استقلال کے ساتھ چہرۂ انور پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور فرماتے ! آج اسی سرخروئی کے ساتھ بارگاہ ِ احدیت اوردربارِ رسالت میں حاضر ہو نگا اور اپنا حال دکھائوں گا۔گویااس ساری رودادِ الم میں جو چیز سب سے زیادہ نمایا ں ہے وہ امام مظلوم کی اسلام کے ساتھ کامل وفاداری اور ہر حال میں حق کی حمایت ہے ۔ساتھ ساتھ مصائب کی محیر العقول برداشت بلکہ خندہ پیشانی سے ہر درد و الم کا استقبال کرنا جیسے انکو سب کچھ پہلے ہی معلوم تھا اور وہ اسی قربانی کے لئے تیار ہو کر ہی آئے تھے ۔ہم اپنے مضمون میں یہی واضح کرنا چاہتے تھے کہ اسلام تقدیر کے نوشتوں کے بدلنے کا دعویدار نہیں ۔مصائب کے طوفان کا دھارا موڑ دینے کا مدعی نہیں ۔ لیکن اسلام مصائب سے کھیلنا ضرور سکھا دیتا ہے ۔بلا کے ساتھ تباہ کرنے کا ڈھنگ البتہ بتا دیتا ہے اور آلام کے مقابلہ کے لئے ایک عجیب نکتہ نگاہ ایک عجب انداز مشرب ضرور عطا کرتا ہے ۔آج بھی اسلام دوستی کے ثبوت کے لئے وقت کے یزید سے نبرد آزما ہونا غلامانِ امام حسین رضی اللہ عنہ پر فرض ہو چکا ہے ۔ امریکہ واس کے گماشتے پھر سے حدود اللہ کی پامالی اور ملتِ اسلامیہ کو دستور اسلام سے ہٹانے کے لئے میدان میں اتر چکے ہیں ۔غمِ حسین رضی اللہ عنہ میں رونا عبادت ہے مگر کردار حسین رضی اللہ عنہ کو اپنانا ریاضت ہے ۔امام حسین رضی اللہ عنہ ناز و نعم میں نشو نما پا کر مصائب و آلام سے ٹکرا گئے اور تاریخ عالم میں نیا باب رقم کیا جو نہ پہلے تھا اور نہ قیامت تک پھر رقم ہو گا۔ آئیے ’’امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام صبر و رضا ‘‘ کو عام کریں تاکہ یزیدی قوتیں اپنے انجام کو پہنچیں