آرٹیکل
سیاست کی عالمی بساط پر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد
ڈونلڈ ٹرمپ ا نتخابی کالج میں دو سو اٹھائیس کے مقابلے میں تین سو چار ووٹ حاصل کر کے چیف جسٹس جان روبرٹس سے حلف لینے کے بعد امریکہ کے پینتالیسویں صدر بن گئے ہیں۔سابق امریکی صدور جمی کارٹر،جارج بُش، بل کلنٹن، اور باراک اوباما اپنی اپنی بیگمات کے ہمراہ حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔ انکی حریف ہیلری کلنٹن جنہوں نے ٹرمپ کے مقابلے میںتقریباََ تیس لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے ، وہ بھی جمہوریت اور انمٹ اقدار کے احترام اور ملک اور اس کے مستقبل پر پختہ ایمان کی وجہ سے حلف وفاداری میں شریک ہوئیں۔ کانگریس کے بہت سے ڈیموکریٹ ارکان احتجاجاََ تقریب میں شامل نہیں ہوئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے لئے ہونے والی تقریب میں تقریباََ آٹھ لاکھ لوگ آئے مگر یہی تقریب جب آٹھ سال پہلے صدر اوباما کے لئے ہوئی تو تقریباََ اٹھارہ لاکھ لوگ شریک ہوئے تھے، شو بز کے کئی بڑے نام امریکہ کے اسوقت کے صدر باراک اوباما کے جشن حلف برداری کی تقریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے آئے تھے جبکہ اسکے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب اسی طریقے سے تنازعات کا شکار رہی ہے جس طرح سے انکا الیکشن تنازعات کا شکار رہا ۔عام طور پر یہ اعزاز سمجھا جاتا ہے کہ سلیبرٹیزکے لئے کہ وہ نو منتخب صدر کی تقریب میںپرفارم کریں مگرٹرمپ کی ٹیم کے مسلسل رابطوں کے باوجود انہوںنے پرفارم کرنے سے انکار کردیا۔ اس تقریب کا روائیتی مارچ بینڈ بھی پیچھے ہٹ گیا۔ سلین ڈیون سمیت معروف امریکی گلوکار وں اور کمپوزرز نے دعوت نامے منسوخ کردیے۔ ایک ایسی شخصیت جن کے بارے میںنہ پولز ،نہ تجزیہ کار اور نہ ہی میڈیامثبت خبریں دے رہا تھا مگر وہ جیت گئے۔ان کے انتخاب کو صرف امریکی عوام نے نہیں بلکہ امریکی اتحادی یورپ سمیت ساری دنیا بڑے غور سے دیکھتے نظر آتی ہے۔ دنیا سوچ رہی ہے کہ امریکہ کی جو جو ٹریڈیشنل اور روائیتی پالیسیز ہیں، ڈیوڈ ٹرمپ وہ ساری کی ساری پالیسیزبدل سکتے ہیں۔ ساری دنیا کی نظریں اس وقت وائٹ ہاوس پر جمی ہیں جہاں ہونے والی تبدیلی کو دنیا امید سے نہیںبلکہ تشویش سے دیکھ رہی ہے عالمی طاقتیں، امریکی اتحادی، امریکہ کے مخالفین سب ہی انجانے خوف میں مبتلا ہیں کیونکہ اب تک ڈونلڈ ٹرمپ کی جو پالیسیز اور بیانات اور ردِ عمل سامنے آئے ہیں وہ حیران کُن ہیں۔جودوست تھے ان کو ناراض،جو دشمن تھے انہیں گلے لگا رہے ہیں ، جو غیر جانبدار ہیں انہیں بھی چھیڑ رہے ہیں۔ اگر کسی نے تنقید بھی کی تو اتنا سخت ردِ عمل دیا کہ تنقید کرنے والا بھی حیران رہ گیا۔ کوئی بھی محفوظ نہ رہا، نہ امریکی انٹیلی جنس ادارے اور نہ امریکی میڈیا۔ البتہ اس پوری صورتحال میں اگر کوئی خوش یا پھر مطمئن ہے تو وہ ہے امریکہ کا پرانا حریف روس۔ حالانکہ امریکی انتخابات کے بعد سے روس باراک اوباما انتظامیہ کی سخت تنقید کی زد میں رہا۔ باراک اوباما نے جب امریکی صدراتی انتخابات کو ہیک کرنے کے الزام میں روسی سفارتی عملے کو ملک بدر کیا اور روسی اداروں پر پابندیاں لگائیں تو روس سخت ردِ عمل دینے کے بجائے خاموش رہا اور ٹرمپ کے آنے کا انتظار کرتا رہا جو سب کے لیے حیران کُن تھا۔ روس کے علاوہ ایک اور ملک بھی ٹرمپ کے انتظا رمیں رہا اور وہ ہے اسرائیل،جس کے خلاف جب سلامتی کونسل میں قرار داد منظور کی گئی تو امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات سخت کشیدہ ہوئے۔ امریکہ کے یورپ میں فرانس اور دوسرے اتحادیوں نے بھی اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا، اسرائیل کی طرف سے بھی شدید تنقید ان اتحادیوں پر ہوتی رہی، اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکہ پر قرار داد کی پشت پناہی کا الزام لگایا، جواب میں امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے اسرائیل کے خلاف قرار دار پر امریکی خاموشی کا دفاع کیا تو پھر سفارتی کشیدگی بڑھی ، اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو انتظار کرنے کا مشور دیا ، یعنی روس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا انتظار رہا۔بات صرف یہیں تک محدود نہ رہی، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل میںواقع امریکی سفارت خانے کو یروشلم میں منتقل کرنے کی بات بھی کی، یعنی متنازعہ علاقے میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کا مطلب ہے کہ امریکہ اس علاقے کو اسرائیل کا حصہ سمجھتا ہے۔ انہوں نے قدامت پسند یہودی ڈیوڈ فریڈ مین کو اسرائیل کا سفیر بنانے کے بعد خارجہ امور کے ایک اہم عہدے پر جیسن ڈوف جیسے کٹر یہودی کو فائز کردیا ہے۔ ٹرمپ نے گاڑیاں بنانے والی معروف کمپنیوں بی ایم ڈبلیو، واکس ویگن اور ڈائلمر کے خلاف بھی فتویٰ دے دیا ہے۔ ٹرمپ کو بریگزٹ کے حوالے سے بیانات دینے پر بھی تنقید کا سامنا ہے۔ جہاں امریکہ کی خواہش تھی کہ بریگزٹ نہ ہو، برطانیہ پورے یورپی پارٹنر شپ کا حصہ رہے، وہاں ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف بریگزٹ کے حق میں تھے بلکہ وہ دوسرے ممالک کو بھی یورپی یونین کو چھوڑ نے کا مشورہ اور یورپی یونین توڑنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یورپ کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ یورپ کو پورے اتحاد میں رہنا چاہیے ، لیکن ٹرمپ اسکے خلاف بیانات دیتے رہے۔ یورپی ممالک جو امریکہ کے قریب سمجھے جاتے ہیں وہ سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ یورپی یونین کے خاتمے کی بات پر تمام اہم یورپی ممالک کا سخت رد عمل سامنے آیا جو کہ عام طور پر امریکہ کے کسی نو منتخب صدر کے بیان کے جواب میں نہیں آتا۔ جرمن چانسلر نے کہا کہ یورپیوں کی تقدیر خود ہمارے ہاتھوں میں ہے ، فرانسیسی صدر نے کہا کہ یورپ کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں اس کے لیے اسے کسی بیرونی مشورے کی ضرورت نہیں ۔ ادھر یورپی یونین نے برطانیہ کو ۲۰۱۹ ء سے قبل انفرادی طور پر امریکہ کے ساتھ کوئی تجارتی معائدہ کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ یورپی یونین توڑنے کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو کو فرسودہ اور ناکارہ قرار دے چکے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس اتحاد کا کوئی فائد ہ نہیں رہ گیا ۔وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نیٹو کے اٹھائیس ارکان میں سے زیادہ تر اپنے بقایا جات ہی ادا نہیں کرتے ، یہ امریکہ کے اوپر بوجھ ہے ۔ یہ اتحاد بہت پہلے وجود میں آیا مگر دہشت گردی ختم کرنے میں ناکام رہا، اس لیے یہ اتحاد بے کار ہو چکا ہے۔ یعنی وہ اتحاد جو سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے قائم کیا گیاتھا اب اس اتحاد کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں اور اسے روس کے حق میں اور اس کے قریب آنے کی بات کرتے ہیں۔انکی خارجہ پالیسی میں نیٹو، سیٹو، ایساف اور دیگر کی کوئی اہمیت نہیں، جاپان ، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک میں موجود افواج کا مالی بوجھ متعلقہ ممالک کو خود برداشت کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اسی طرح ٹرمپ نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل پر مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت کو تباہ کن غلطی قرار دیا۔ جب مہاجرین آ رہے تھے توساری دنیا جرمنی کی تعریف کررہی تھی لیکن ٹرمپ تھے جو تنقید کر رہے تھے۔ جواب میں جرمنی کا سخت رد عمل سامنے آیا اور جرمن چانسلر نے کہا کہ بغیر سوچے سمجھے امریکی مداخلت کی وجہ سے پناہ گزینوں کے بحران نے جنم لیا ہے۔ چائنہ کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ ہم ون چائنہ پالیسی کے پابند کیوں ہیں، یہ بھی تاریخ سے ہٹ کر بات تھی، کیونکہ امریکہ کے جو بھی اختلافات ہوں ون چائنہ پالیسی پر وہ عملدرآمد کرتے رہے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تائیوان کے صدر سے اس حوالے سے بات بھی کی۔تائیوان کے سربراہ سے بات کرنے کو چائنہ نے پسند نہیں کیا، جسکے بعد سے چین اور امریکہ کے تعلقات میںتناوٗ پیدا ہوا، چین کی طرف سے بڑے سخت بیانات آئے، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے خبردار کیا کہ ون چائنہ پالیسی میں مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور اس میں مداخلت اور نقصان پہنچانے کی صورت میں دونوں ممالک کے تعلقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ٹرمپ کی طرف سے ان اقدامات پراس وقت کی امریکی حکومت یعنی باراک اوباما انتظامیہ خود پریشان نظر آئی۔ حالانکہ ماضی میں تمام امریکی حکومتیں چاہے وہ ری پبلکن کی ہوں یا ڈیموکریٹس کی ، انیس سو اناسی سے ون چائنہ پالیسی پر قائم رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کے ساتھ تعلقات کا مستقبل بھی غیر واضح ہے، صدر اوباما نے ایران سے پابندیاں کم کیں، تعلقات بہتر کرنے کی طرف بڑھے مگر ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معائدے پر نظر ثانی اور اسکو شدید غلطی قرار دے رہے ہیں، ٹرمپ کی مشرق وسطی کی پالیسی یہ ہیکہ وہ مشرق وسطی میں حکومتوں کو بنانے اور گرانے سمیت دیگر معاملات میں امریکہ کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ سعودی عرب کو داعش، القاعدہ ، طالبان اور دیگر اسلامی شدت پسند اور دہشت گردتنظیموں کا پشت بان قرار دے رہے ہیں۔و ہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عراق پر قبضہ ایک بڑی غلطی تھی اور بغیر تیل پر قبضہ کیے وہاں سے نکلنا اس سے بھی بڑی غلطی ، کیونکہ اسی تیل نے داعش کو زندہ رکھا۔ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران امریکی پالیسی کے بر خلاف شام میں بشار الاسد حکومت کی حمایت اور داعش کے خلاف کاروائیوں کا اشارہ دے چکے ہیں اور جس طرح داعش امریکی پالیسیوں کی وجہ سے مضبوط ہوئی اسکے خلاف ہیں۔ ، شام میں امریکہ نے داعش کومضبوط بنایا اور اس بات کا اعتراف امریکی اخبارات نے کیا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لئے امریکہ نے باغیوں کی حمایت کی، انہیں اسلحہ اور تربیت دی، اور وہ آخر میں داعش کے ہاتھ لگا۔ اسکے علاوہ باراک اوباما انتظامیہ نے عراق میں ایسے حالات پیدا کئے کہ داعش کے لئے راہ ہموار ہوئی۔ داعش نے دو ہزار چودہ میں موصل سمیت عراق کے کئی بڑے شہروں پر قبضہ کرلیا۔ اور یہ سب نتیجہ قرار دیا جاتا رہا امریکی پالیسیوں کا، اب ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ اس پالیسی کو ریورس کریں گے اورروس کے ساتھ ملکر داعش کا خاتمہ کریں گے۔پاکستان کے حوالے سے اپنی الیکشن مہم میں کچھ مثبت مگر زیادہ تر منفی باتیں کرتے نظر آئے۔وہ امریکہ کو اسامہ بن لادن تک لے جانے والے مرکزی کردار شکیل آفریدی کو امریکہ لانا چاہتے ہیں جسے امریکہ میں ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ انکے صدر بننے کے بعد شکیل آفریدی دو منٹ میں امریکہ میں ہوگا، یقیناََ پاکستان کی حکومت پر اسکا سخت پریشر ہے۔ دو ہزار بارہ میںٹویٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اسامہ بن لادن کو اپنے پاس چھ سال تک رکھنے پر پاکستان کب تک ہم سے معافی نہیں مانگے گا۔ ڈونلڈٹرمپ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور فطری اتحادی اور بیسٹ فرینڈ ہونے کی بات کہہ چکے ہیں، بھارت کی پاکستان مخالف بیانات کی تائید بھی کر رہے ہیں، پاکستان کو چیک رکھنے کے لیے بھارت کو استعمال کرنے کے موڈ میں نظرآتے ہیں۔ اسوقت جواباََ پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کابھی سخت رد عمل سامنے آیا، انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں سے ناواقف ہیں، مونگ پھلی کے چند دانوں کے بدلے پاکستان کو دھمکایا نہیں جا سکتا، ڈونلڈ ٹرمپ کو خود مختار ممالک سے متعلق بات کرنا سیکھنا چاہیے، ٹرمپ یاد رکھیں پاکستان امریکی کالونی نہیں ، کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستانی حکومت کو ڈکٹیٹ کرے، ٹرمپ اگر امریکی صدر بن بھی گئے تو بھی وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہو نگے، شکیل آفریدی کا فیصلہ پاکستانی عدالتیں اور حکومت کرے گی۔امریکی پریشر میں پاکستان نے حافظ سعید کو بھی نظر بند کر دیا ہے۔ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یہ بھی خبر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کو ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے دھمکی دی گئی کہ اگر اقوام متحدہ کی واچ لسٹ پر موجود شدت پسندوں کے خلاف کاروائی نہیں کی تو پاکستان کی حکومت کے اراکین، سرکاری حکام اور انکے اہل خانہ کے امریکی ویزے منسوخ کر دیے جائیں گے، جس کے نتیجے میں حافظ سعید کو نظر بند کردیا گیا۔ ٹرمپ یہ بھی کہتے رہے کہ وہ اقتدار میں آکر میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دو ہزا ر میل طویل سرحد پر تیس فٹ بلند کنکریٹ کی دیوار تعمیر کریں گے تاکہ میکسیکو اور جنوبی امریکا کے دیگر ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن اور جرائم میں ملوث لوگ امریکہ میں داخل نہ ہو سکیں اور اب انہوں نے باقاعدہ نہ صرف اس پالیسی پر عملدرآمد کااعلان کیا ہے بلکہ یہ بھی واضح طور پرکہا ہے کہ اس دیوار کی تعمیر پر لگنے والے آٹھ ارب ڈالر بھی میکسیکو سے وصول کیے جائیں گے۔ ڈیوڈ ٹرمپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ میکسیکو میں سستی لیبر کی لالچ میں لگائے امریکی سرمائے کو واپس لائیں گے تاکہ بے روزگار امریکیوں کو روزگار مل سکے۔ادھر جواباََ میکسیکو کے صدر نے ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات بھی منسوخ کردی ، پھر ٹرمپ نے بھی کہہ دیا کہ پیسے نہیں دینے تو ملاقات کی بھی ضرورت نہیں۔وہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ نارتھ امریکن فری ٹریڈ معائدے پر بھی نظر ثانی کریں گے جس پر میکسیکو اور کینیڈا نے دستخط کیے تھے۔وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کی ان شہری حکومتوں کی وفاقی امداد میں کٹوتی کر یں گے جہاں غیر قانونی تارکین وطن کا جم گٹھاہو گا، اور وہ امیگریشن روکنے کے لیے پولیس کے اختیارات اور بارڈر سیکیورٹی کی تعداد میں کم از کم ایک لاکھ کا اضافہ بھی کریں گے۔ نیٹو کو امریکی خرچے پر عیاشی اورماحولیاتی آلودگی کے پیرس عالمی سمجھوتے کو سائینسی فراڈ قرار دے رہے ہیں ۔امریکہ کے اندر بھی وہ ٹریڈ اتحاد کو امریکی مفادات کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ اوباما کی جانب سے دنیا کے چالیس فیصد کے مالک بحر الکاہل کے آر پار ممالک کے ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ کے آزاد تجارتی معائدے کا ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں داخل ہوتے ہی اپنے قلم سے سر قلم کر دیا۔ وہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی رجسٹریشن کی بات بھی کر رہے ہیں۔ ڈیوڈٹرمپ نے حلف برداری کے خطاب کے دوران کہا تھا کہ وہ دنیا سے’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔ انہوں نے اپنا منصب سنبھالتے ہی امریکہ میں دہشت گردوں کی آمدکا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سات اسلامی ممالک شام، عراق، ایران، یمن، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ کے لوگوں کو ویزے دینے سے روک دیا۔ افغانستان، پاکستان اور سعودی عرب کے لوگوں کے ویزہ درخواستوں کی سختی سے جانچ پڑتال کا حکم دیا۔ ڈیوڈ ٹرمپ کی جانب سے صدارتی حکم نامہ جاری ہونے کے فوراََ بعد امریکہ میں قانونی طور پر ویزہ حاصل کرنے والے لوگوں کو جبراََ روکا گیا اور جان آف کینیڈی ائیر پورٹ میدان جنگ بن گیا۔ جس کے فوراََ بعد امریکہ کی شہری آزادی کی تنظیم امریکن سول لبرٹیز یونین نے صدر کے حکم نامے کے خلاف مقدمہ دائر کیااوربروکلین کی عدالت نے امریکی صدر کے صدارتی حکم نامے پر عبوری طور پر عمل درآمد روک دیا جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ممالک کے پناہ گزینوں کی امریکہ میں پابندی لگائی گئی تھی۔ایران نے جواباََ اس فیصلے پر رد عمل کرتے ہوئے امریکی شہریوں پر ایران کے ویزے کے لیے پابندی لگا دی جس سے ماحول مزید کشیدہ ہو گیا۔امریکی قائم مقام اٹارنی جنرل سمیت امریکی ریاستوں نیویارک، کیلی فورنیا، پنسلونیا سمیت سولہ امریکی ریاستوں کے اٹارنی جنرلز کی جانب سے سات اسلامی ممالک کے افراد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کی ڈونلڈ ٹرمپ پالیسی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔صدر ٹرمپ نے جوابی وار کرتے ہوئے امریکی قائم مقام اٹارنی جنرل کو امیگریشن سے متعلق اپنے ایگزیکٹیو آرڈر کی حمایت نہ کرنے پر ان کے عہدے سے برطرف کردیا ۔ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپ سمیت دنیا کے چھ سو مقامات پرصدر ٹرمپ کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ادھر برطانیہ کی اکثریتی عوام اورلندن کے میئر صادق خان سمیت لیبر پارٹی کے سربراہ جمی کوربن نے ڈونلڈ ٹرمپ کا آمدہ دورہ برطانیہ کینسل کرنے کا مطالبہ کردیا اور یہ مسئلہ پارلیمنٹ تک جا پہنچا جہاں ممبران پارلیمنٹ کے درمیان ڈونلڈ ٹرمپ کے آمدہ دورہء پر پابندی کے حوالے سے انتہائی سخت ماحول میں بحث جاری ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مبینہ نفرت انگیز اعلان کے بعد ٹیکساس کی مسجد کو آگ لگائی گئی جس سے امریکہ میں مقیم مسلمان کمیونٹی کے اند ر غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ کینیڈا کی مسجد میں بھی فائرنگ سے چھ مسلمان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے اسکو بھی صدر ٹرمپ کی متشدد آمیز پالیسیوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ ادھرامریکہ میں پناہ گزینوں پر پابندی کے بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈ نے بھی ٹویٹ کردیاکہ انکا ملک مذہب کی تفریق کیے بغیر ایسے پناہ گزینوں کے استقبال کے لیے تیار ہے جو دہشت گردی، جنگ یا تشدد اور ظلم و زیادتی کا شکار ہیںباراک اوبامانے امریکہ کے لیے بدنامی کا باعث بننے والی نائن الیون کے بعد کیوبا کے جزیرے گوانتاناموبے میں قائم کی گئی جیل میں تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی اور اب سات سو سے کم ہو کراسکی تعداد اکتالیس رہ گئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف اس جیل کی حمایت اور اس کو جاری رکھنے کے حامی ہیں بلکہ وہ یہاں مزید قیدی بھرنے کا اعلان کر چکے ہیں جو انکی ٹارچر پالیسی کی عکاسی ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے سابق نگران جنرل جان کیری کو محکمہ ہوم لیڈ سیکیورٹی کا سربراہ بھی مقرر کر دیا ہے۔ ادھرگلوبل ریسرچ ویب سائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکی وزارت جنگ (پینٹا گون) کے اہلکاروں سے ایک ملاقات میں انہیں عالمی جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا ہے جسکو پوری دنیا تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔باراک اوباماانتظامیہ نے کئی امریکی حریفوں کو حلیف بنایا، کیوبا کے ساتھ اٹھائیس سال بعد تعلقات بحال ہوئے ، انیس سو اٹھائیس کے بعد کیوبا کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بنے، امریکہ کے ایک اور حریف ایران کے ساتھ بھی قربت بڑی، دونوں ملکوں کے درمیان تقریبا سینتیس برس کی سفارتی سردد مہری کے بعد ایران کے ساتھ تعلقات خوشگوار تو نہیں ہوئے مگر تنازعہ کسی حد تک کم ہوا، تعلقات پر جمی برف پگلی، اپریل دو ہزار پندرہ میں ایران اور عالمی طاقتوں میں جوہری معائدہ ہوا، مگر ٹرمپ اس معائدے کے خلاف ہیں اور اسے بھی ریورس کرنا چاہتے ہیں۔وہ کہہ رہے ہیں کہ اقتدار ایک صدر سے دوسرے صدر یا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو نہیں بلکہ واشنگٹن سے امریکی عوام کو منتقل ہوا ہے اوراب امریکی عوام کی اپنے ملک پر حکمرانی بحال ہو گی لیکن دوسری جانب امریکی عوام انکے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ دنیا کی تقسیم ، نسل پرستی میں اضافہ اور امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ ٹرمپ کی پالیسیز کی وجہ سے دوست ہوں یا دشمن سبھی پریشان ہیں، اس حوالے سے سابق امریکی صدر باراک اوباما بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو محتاط ہونے کا مشورہ دے چکے ہیں، یہ وہ سب کچھ ہے جسکی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے دنیا نروس نظر آتی ہے، وائٹ ہاوٗس پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ امریکی اتحادی ، امریکی مخالفین سب ہی انجانے خوف میں مبتلا ہیں ۔ عالمی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ الغرض سیاست کی عالمی بساط پر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد آمد ہے۔ ۔۔!