آرٹیکل
اسلام تلوار سے نہیں حُسن کردار سے پھیلا ہے
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر مختلف النوع طبقات ،قبائل اور قوموں میں تقسیم فرمایا ،کوئی حاکم ہے اور کوئی محکوم ،کوئی امیر ہے اور کوئی فقیر کسی کے پاس طاقت ہے اور کوئی کمزورمگرکوئی بھی قوم اگر طاقت کے نشہ میں مست ہو اور اس کے پاس وسائل کی بہتات ہو، اس کا مقابل بھی کمزو رہو اور دین و اخلاق کا کوئی ضابطہ بھی اس کو روکنے والا نہ ہو تو مانا جا سکتا ہے کہ ایسی قوم جنگ کا اعلان کر دے تاکہ کمزور دشمن کو نیست و نابود کر کے اپنی حکومت کو وسعت دے ،اپنے خدمت گاروں کی صفوں میں اضافہ کرے اور ان کی دولت و ثروت کو ہڑپ کر لے ۔لیکن تاریخ ہمیں ایسی ایک بھی مثال نہیں بتا سکتی کہ کسی کمزور اور تعداد میں کم نیز سامان جنگ سے یکسر محروم قوم نے شوقیہ ،اپنے سے طاقتور ،کثیر التعداد اور ہر قسم کے اسلحہ سے لیس قوم کو جنگ کے لئے للکارا ہو۔تواب خود فیصلہ فرمائیے کہ ان مخالفین اسلام و دشمنان ملت اسلامیہ کا یہ خیال کہاں تک درست ہے کہ جنگ مسلمانوں کا مشغلہ تھا اور اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔ہم مخالفین اسلام سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا مسلمانوں نے ان حالات میں پہل کی؟ ہر گز نہیں ۔آپ قرآن حکیم کی آیت :کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم۔کے الفاظ پر غور فرمائیں۔وھو کرہ لکم ۔کہ ’’تم پر جہاد فرض کیا گیا حالانکہ وہ تمہیں ناپسند ہے ۔‘‘اگر مسلمان طبعی طور پر جنگجو ہوتے اور ان کا دین انہیں لوٹ مار کا سبق دیتا تو کیا وہ جنگ کو ناپسند کرتے؟ہر گز نہیں بلکہ وہ بہانے تلاش کرتے کہ کوئی موقع ہاتھ آئے تاکہ لوٹ مار کی حسرت پوری ہو سکے ۔ہجرت سے پہلے مسلمانوں کو جنگ و قتال کی مطلق ممانعت تھی اور اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ وہ کفار و مشرکین کی ایذارسانی پر صبر کریں ۔جس پر قرآن حکیم کی حسب ذیل آیات دلالت کرتی ہیں ۔واصبر علی مایقولون واھجرھم ھجرا جمیلا۔ وذرنی والمکذبین اولی النعمۃ ومھلھم قلیلا۔ ’’اور کافر جوکچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے اور ان کو خوش اسلوبی سے چھوڑ دیجئے اور جھٹلانے والے مالداروں کو مجھ پر چھوڑ دیجئے اور انہیں تھوڑی سی مہلت دیجئے ۔‘‘اور دوسرے مقام پر فرمایا:فاعف عنھم واصفح۔’’آپ ان کو معاف کر دیجئے اور ان سے در گزر کیجئے۔‘‘اور ایک جگہ اور فرمایا: فذکر انما انت مذکر۔ لست علیھم بمصیطر۔’’سو آپ نصیحت کیجئے ،آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں ،آپ ان کو جبر سے منوانے والے نہیں ہیں ۔‘‘ گویا کہ ان آیات میں کفار کی ایذار سانیوں پر آقائے کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو صبر کرنے اور در گزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔جب آقائے دو عالم حضرت محمد مصطفیٰﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو کفار و مشرکین اس پر بھی باز نہ آئے ۔بار بار ان کی طرف سے جنگ کے اعلانات ہوتے اور طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتیں ۔جب کفار کا یہ ظلم حد سے تجاوز کر گیا تو مسلمانوں کو بھی ان کفار و مشرکین کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دے دی گئی ۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :وقاتلوا فی سبیل اللّٰہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ۔ان اللّٰہ لا یحب المعتدین ۔’’اور اللہ کی راہ میں لڑوان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو ۔کہ اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو۔‘‘اذن للذین یقٰتلون بانھم ظلموا۔’’جن (مسلمانوں) سے ناحق قتال کیا جاتا ہے انکو (جہاد کی )اجازت دے دی گئی کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے ۔‘‘اب ذرا خالی الذہن ہو کر آپ ان آیات مقدسہ کے معانی پر غور فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر اچھی طرح واضح ہو جائے گی کہ لڑائی میں پہل مسلمانوں کی طرف سے نہیں ہوئی بلکہ کافروں کی طرف سے ہوئی تھی ۔تبھی تو ان آیات میں ان مظلوم مسلمانوں اور ستم رسیدوں کو طاقت کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت دی جار ہی ہے ،جن پر مسلسل بارہ تیرہ برس ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے جسے تسلیم و رضا کے یہ مجسمے خاموشی سے برداشت کرتے رہے ۔پھر جب کفار کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو ان کے ظلم و فساد کی جڑکاٹنے اور ان کے کفر کی سر کشی کا زور توڑنے کے لئے مسلمانوں کو بھی ان سے لڑنے کی اجازت دی گئی ۔اسلام کے پاکیزہ عمل جہاد کو بنیاد بنا کر جو لوگ اسلام پر طعنہ زنی کرتے ہیں کہ دنیا میں اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ،انہیں مندرجہ بالا آیات کے معانی پر انصاف کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ ہجرت سے پہلے تو مسلمانوں کولڑنے کی مطلق اجازت ہی نہیں تھی ۔مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو اس کے علاوہ اور کوئی کام ہی کیا تھا کہ وہ کفار کے ہاتھوں سے مار کھاتے رہیں، زخم پر زخم سہتے رہیں ،قتل ہوتے رہیں اور صبر کرتے رہیں ۔جب کافروں کا ظلم حد سے بڑھ گیا تب مسلمانوں کو بھی تلوار اُٹھانے کی اجازت دی گئی ۔نیز مذکورہ بالا آیت مبارکہ :اُذن للذین یقٰتلون بانھم ظلموا۔کے شان نزول میں صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیدنعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’کفار مکہ اصحاب رسول اللہ ﷺ کو رو ز مرہ ہاتھ اور زبان سے شدید ایذائیں دیتے اور آزار پہنچاتے رہتے تھے اور صحابہ حضور ﷺ کے پاس اس حال میں پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے تو کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے اور کسی کا پائوں بندھا ہوا ہے ۔روز مرہ اس قسم کی شکایتیں بارگاہِ اقدس ﷺ میں پہنچتی تھیں اور صحابہ کرام کفار کے مظالم کی حضور ﷺ کے دربار میں فریادیں کرتے ۔تو حضور پر نور ﷺ یہ فرما دیا کرتے کہ صبر کرو ،مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ جب حضور انو رﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ پہلی آیت ہے جس میں کفار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ تو اَب یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اسلام اگر تلوار کے زور سے پھیلا ،تو بتا یا جائے کہ وہ سینکڑوں مسلمان جو عین مظلومی کی حالت میں مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ گئے تھے (جنہیں مہاجرین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ) انہوں نے کس کی تلوار کے خوف سے اسلام قبول کیا تھا ؟ جب کہ اس وقت تو تلوار کفار مکہ کے ہاتھ میں تھی ۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں تلوار تھی ہی کہاں؟ کہ تلوار کے خو ف سے کوئی اسلام قبول کرتا۔اس لئے تاریخ کا یہ فیصلہ سب کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنی حقانیت ،اپنی پاکیزہ تعلیمات ،اپنے اُصولوں کی برتری ،اپنے پیغمبر کی روحانی واخلاقی قوت اور قرآن مجید کی معجزانہ آیات کی کشش سے پھیلا ۔جس کی مثالیں آج بھی دیکھنے کو ہمیں ملتی ہیں اور مل رہی ہیں ۔جیسا کہ چند سال قبل ہی افغان مسلمان مجاہدین کی قید سے رہائی کے بعد 42سالہ مشہور برطانوی صحافی ’’ریڈلی‘‘ نے اسلام قبول کیا ۔جو مشہور انگریزی روزنامہ سنڈے ایکسپریس کی مہم جو نامہ نگار ہے ۔قبولیت اسلام کی ایک وجہ اس نے یہ بتائی کہ جب مجھے قید خانے سے رہا کر کے باہر لایا گیا تو ایک مسلمان رضا کارنے بڑھ کر مجھے ایک چادر پیش کی ۔ میں نے فوراً اس چادر کو اپنے سر پر ڈال کر اپنے بدن سے لپیٹ لیا۔میں نے دیکھا کہ اس منظر کو دیکھ کر اس نوجوان مسلمان رضا کار کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیر نے لگے اور اس کی زبان سے یہ کلمات نکلے۔’’یہ ایک چھوٹے بھائی کی طرف سے دی ہوئی چادر ہے ۔اس کا لحاظ رکھنا۔‘‘آج میں قرآن کے علاوہ جس چیز کو سب سے زیادہ محبت و احترام سے اپنے پاس رکھتی ہوں وہ چھوٹے بھائی کی اُوڑھائی ہوئی یہ چادر ہے ۔ریڈلی کے اسلام قبول کرنے کی ایک اور اہم وجہ یہ تھی کہ قید سے رہائی کے بعد ریڈلی نے لندن پہنچ کر قرآن مجید کا مطالعہ شروع کر دیا۔ریڈلی کہتی ہیں کہ میں نے قرآن کا مطالعہ ایک علمی مشغلہ کے طور پر شروع کیا تھا لیکن ہر صفحہ کے مطالعہ کے بعد میں نے اپنے اندر ایک غیر اختیاری تبدیلی ہوتی ہوئی محسوس کی ۔اسلام کے بارے میں بہت کچھ جاننے کی اُمید بڑھتی ہی چلی گئی ۔پھر میں نے ہر روز کسی نہ کسی اسلامی اسکالر سے رابطہ کرکے اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالوں کا جواب ڈھونڈنا شروع کیا ۔ریڈلی کا کہنا ہے کہ جس اسلام نے عورتوں کو کسی بھی دوسرے قانون سے زیادہ احترام اور حقوق دے رکھے ہیں ،اس اسلام سے مجھے عشق ہو گیا ،جس میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور ہر بندہ اپنے خالق سے جب چاہے اپنا رابطہ کر سکتا ہے ۔نیز ریڈلی کا بیان ہے کہ مجھ پر ان مسلمانوں نے کبھی بھی اسلام قبول کرنے کے لئے کوئی دبائو نہیں ڈالا جن سے میں اسلام کو سمجھنے کے دوران ملاقات کرتی رہی ۔ حتیٰ کہ ان مسلمان جنگجوئوں نے بھی مجھ پر اسلام قبول کرنے کے لئے کوئی شرط عائد نہیں کی ،جن کی قید میں تھی اور جن کے ملک میں قانونی دستاویزات کے بغیر خفیہ طریقے سے داخل ہوکر میں نے قانونی جرم کیا تھا۔تو اَب آپ ہی بتائیں کہ اس ریڈلی نے کس کی تلوار کے خوف سے اسلام قبول کیا ؟الغرض یہ ماننا پڑے گا کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ یہ اپنی حقانیت اور کلام پاک کی پاکیزہ تعلیمات سے پھیلا ۔جہاد کا حکم تو صرف اور صرف اس لئے دیا گیا تھا کہ کلمہ حق کی راہ میں کافروں نے جو رکاوٹیں کھڑی کی تھیں ۔انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے تاکہ دل و دماغ کی پوری آزادی کے ساتھ لوگوں کو دعوت توحید کی سچائی کو پر کھنے اور قبول کرنے کا موقع میسر آئے ۔ اس کے علاوہ مستشرقین کا یہ الزام کہ مسلمان طبعاً ظلم ، جنگ و جدال کے عادی اور دہشت گرد ہیں ، یہ کہاں تک صحیح ہے ۔درج ذیل واقعات سے آپ خود فیصلہ فرمائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ 490ھ سے 588ھ تک یعنی 98سال کے قریب بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں رہا ْ۔عیسائیوں نے جب بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھینا تو مسلمانوں کے خو ن کی ندیاں بہادی تھیں ۔لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نے 588ھ میں جب اس مقدس شہر کو عیسائیوں سے فتح کیا تو کسی عیسائی باشندے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔پھر اس کے بعد عیسائی جب دو بارہ ایک لشکر عظیم لے کر متفقہ طور پر تمام براعظم ایشیا کو فتح کر کے اسلام کا نام و نشان مٹانے کے اِرادے سے پوری طرح حملہ آور ہوئے تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسلسل چار سال تک کئی سو لڑائیاں لڑ کر عیسائیوں کے اس لشکر جرار کو خاک و خون میں ملا دیا اور اپنے سامنے سے بھگا دیا اور بیت المقدس کی دیواروں تک نہیں پہنچنے دیا ۔آخر ناکام و نامراد یہ عیسائی سلاطین نہایت ذلت کے ساتھ جب واپس ہوئے تو ان سے انتقام کے طور پر بیت المقدس کی زیارت سے ان کو محروم کر دینے کی بجائے ان عیسائیوں کو سلطان نے یہ رعایت تک عطا کر دی کہ وہ اگر بیت المقدس میں محض زیارت کے لئے آئیں تو ان کو کسی قسم کی روک ٹوک نہ کی جائے ۔کیا اس طرح کی کوئی مثال دوسری کسی قوم نے آج تک پیش کی ہے ؟ اگر نہیں تو پھر ان مستشرقین کا آج بھی یہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ مسلمان طبعاً ظلم ڈھانے والا ،جنگ وجدال کاخوگر اور دہشت گرد ہے ۔ نیز مذکورہ بالا آیات مقدسہ :قاتلوا فی سبیل اللّٰہ یقاتلوکم ولا تعتدوا،ان اللّٰہ لا یحب المعتدین۔میں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ اگر اسلام قتل و غارت گری کا مذہب ہوتا ۔جیسا کہ ان متشرقین کی طرف سے ہ الزام عائد کیا جاتا ہے ،تو مسلمانوں کو یہ ہدایت کبھی نہیں دی جاتی کہ دشمنوں کا مقابلہ کرتے وقت اپنی طرف سے کوئی زیادتی مت کرنا کیونکہ زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ۔تو گویا اس آیت مبارکہ کی روشنی میں یہ حقیقت بھی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ میدان جنگ میں بھی مسلمان ضابطہ اخلاق کا پابند ہے ۔اس آیت کریمہ میں ہم مسلمانوں کو بھی یہ درس ملتا ہے کہ قرآن حکیم کے حکم جہاد کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تین چیزوں کو خوب ذہن نشین کر لیا جائے ۔(۱)کس مقصد کے لئے ؟(۲)کس کے ساتھ؟(۳)اور کن شرائط و قیود کے ساتھ قرآن نے جہاد کی اجازت دی ہے ؟اس آیت میں ان تینوں اُمور کی وضاحت کر دی گئی ہے ۔1:مقصد جہاد کے متعلق تو یہ فرمایا کہ فی سبیل اللہ ۔یعنی حق کی سربلند ی کے لئے اور خالص اللہ کی راہ میں ۔لوٹ مار، تجارتی و صنعتی رقابت، وطنی یا نسلی عداوت و تعصب یا اس قسم کے دیگر سفلی مقاصد کے لئے نہیں ۔2: صرف ان لوگوں کے ساتھ جو ’’للذین یقاتلوکم‘‘بن کر کھڑے ہوں ۔یعنی جو تمہارے ساتھ جنگ کر رہے ہیں ۔جو تم پر یلغار کرنے کے لئے پر تول رہے ہیں ۔3: اس شرط کے ساتھ کہ ’’لا تعتدوا‘‘یعنی جس وقت جذبات قابو میں نہ رہیں اور آتش انتقام بھڑک اُٹھے تو خبردار ! اس وقت بھی کسی پر زیادتی مت کرنا ۔کیونکہ زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ۔ چنانچہ امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ روایت نقل فرماتے ہیں :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت شریفہ میں ’’لا تعتدوا‘‘یعنی ’’حد سے نہ بڑھو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو اور نہ اس کو قتل کرو جو ہتھیار ڈال دے ،اگر تم نے ان کو قتل کیا تو تم حد سے تجاوز کرنے والے ہو گے ۔جس طرح آج کے طالبان سوات میں اور پورے ملک میں بے گناہ افراد کا قتل کر رہے ہیں یہ تعلیمات اسلام کے منافی ہے۔امام مسلم روایت کرتے ہیں :حضرت برید ہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو لشکر کا امیر بناتے تو اس کو خصوصیت کے ساتھ خوف خدا کی وصیت کرتے اور فرماتے ۔بسم اللہ پڑھ کر جہاد کرو اور جو اللہ کا انکار و کفر کرے اس سے قتال کرو اور خیانت نہ کرنا ۔عہد شکنی نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا (یعنی کسی کے اعضانہ کاٹنا) اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔‘‘کیا خوب ہے مصطفوی جہاد اور کتنا قابلِ مذمت ہے طالبانی نام نہاد’’جہاد‘‘ یعنی دہشت گردی۔اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا:امام مالک ،حضرت یحیٰی بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ’’ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان کی قیادت میں شام کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تو ان کو یہ وصیت کی کہ عنقریب تم راہبوں سے ملو گے ۔جنہوں نے اپنے زعم میں خود کو اللہ کے لئے وقف کیا ہوا ہے ،ا ن کو چھوڑ دینا اور عنقریب تم مجوسیوں سے ملو گے جو سر کے درمیان سے بال کاٹتے ہیں ۔ ان کو قتل کر دینا اور میں تم کو دس چیزوں کی وصیت کرتا ہوں ۔کسی عورت کو قتل نہ کرنا، نہ کسی بچے کو ،نہ کسی بوڑھے کو اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا اور نہ کسی بکری یا اونٹ کی کھونچیں کاٹنا اور نہ کسی کھجورکے درخت کو جلانا ،نہ کسی آبادی کو ویران کرنا اور نہ کسی کو غرق کرنا اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرنا اور نہ بزدلی کرنا ۔‘‘یہ ہیں اسلامی جہاد کے دستور ۔مستشرقین یورپ جو اسلام کے نظریہ جہاد پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ،وہ انصاف سے بتائیں کہ دنیا میں کیا کوئی قوم ایسی گزری ہے یا آج کی مہذب و متمدن دنیا میں کوئی قوم ایسی موجود ہے جس کے جنگی اُصولوں میں اس طرح کا عدل و انصاف اور لحاظ رکھا گیا ہو؟بلکہ آج تو جنگ اس طرح کی ہوتی ہے کہ پر امن شہروں اور آباد بستیوں تک کو بمبوں ،میزائلوں اور توپوں سے اُڑا کر رکھ دیا جاتا ہے ۔عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں اور بیماروں تک کو بخشا نہیں جاتا حتیٰ کہ ہسپتالوں ،درسگاہوں اور عبادت خانوں تک کا احترام بھی پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔امریکی ڈرون حملے اس کی موجودہ مثال ہیں۔لیکن اسلام ہی وہ اعلیٰ و انصاف پسند و امن دوست مذہب ہے ،جس کے قانون جنگ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسلام نے جنگ سے پہلے ،جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد تینوں مرحلوں میں قتل ناحق کو ہر سطح پر حرام قرار دیا ہے ۔اس کا تقابل آج بین الاقوامی سطح پر نام نہاد جمہوریت اور آزادی کی علمبردار مغربی طاقتوں سے کیا جائے تو اخلاقی اقدا کی دھجیاں فضائے آسمانی میں اُڑتی دکھائی دیں گی ۔یہ سرخ و سفید سامراج امن عالم کے نام پر دنیا ئے شرق و غرب میں ہر طرف ظلم و جنگ کے غیر متناہی سلسلے کا دروازہ کھولے ہوئے نظر آتا ہے اور اس کے دست ظلم و تعدی کو کوئی اخلاقی ضابطہ اور قانون نہیں رو کتا بلکہ نہتے اور مظلوم شہریوں پر بمباری اور بلا استثنائے طفل وزن اور مردان پیروجواں وسیع تر پیمانے پر انسانی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا اس کا شیوہ بن چکا ہے ۔اس کی بلا تمیز جنگی کاروائیوں سے اسکولوں ،اسپتالوں ،مسجدوں اور دیگر فلاح عامہ کے مراکز کو بے دریغ نشانہ بنایا جا تا ہے ۔اس کے مقابلے میں اسلام اس اَمر کی اجازت دیتا ہے کہ کفر سے جنگ کرتے ہوئے کسی کا ناحق خون نہ بہایا جائے ۔ جبکہ موجودہ طالبان بھی مغربی دنیا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے علمی مراکز پر خود کش حملے کر کے اور علمی شخصیات (جیسے ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی رحمۃ اللہ علیہ )کو موت کی وادی میں سُلا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں ۔کیا اسلام کو ماننے والے مساجد و مدارس میں بمباری کرتے ہیں۔کیا طالبان اس کی مثال قرآن ،حدیث یا تاریخ اسلام سے دے سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں بلکہ حامیانِ طالبان بھی نہ دے سکیں گے ۔ تو پھر اسلام کے نام پر اسلام کی بد نامی کروانے والے دشمن کے ایجنڈے پر تو عمل نہیں کر رہے؟کتنی عجیب بات ہے کہ کفر سے لڑائی ہو رہی ہے لیکن شہروں میں ،بت خانوں اور مندروں میں بتوں کی پوجا پاٹ ہو رہی ہے اور اسلام اس بات کی اجازت مرحمت نہیں فرماتا کہ ان کے ساتھ کوئی جبروا کراہ کیا جائے ۔اسلام کی پوری تاریخ اس اَمر کی شاہد ہے کہ تلوار ہمیشہ ظلم کے خاتمے کے لئے ہی نیام سے نکلی اور جونہی ظلم اپنے انجام کو پہنچ گیا تو وہ تلوار واپس نیام میں چلی گئی ۔اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ایک کافر کو مسلمان بنانے کے لئے کبھی تلوار کا سہارا نہیں لیا گیا بلکہ اسلام پھیلانے میں تبلیغ اور حسن کردار ہی فیصلہ کن طاقت ہے ۔تو پھر اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے ملک میں اپنے ہی ہم وطنوں کے خون سے ہولی کھیلنا سلامی تعلیمات سے رو گردانی کرنے کے مترادف ہے ۔جو لوگ پاکستان کے مخالف تھے اُنہی کے پیرو کار آج پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں ۔خدارا! اسلام ،پاکستان اور ملتِ اسلامیہ کی نائو کو منجھدار میں نہ پھنسائو، قتل و غارت بند کرو، دہشت گردی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دو ، اسلام کے فلسفہ ٔ جہاد جس میں احترامِ انسانیت اور بقائے انسانیت کا راز مضمر ہے اُسے اپنا کر دنیا کو بتا دو کہ ’’ اسلام تلوار سے نہیں حُسن کردار سے پھیلا ہے۔‘‘