آرٹیکل

مسلمان کی صبح و شام کیسی ہو۔۔۔؟


اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ اب انسان کو چاہیے کہ وہ دیگر مخلوقات سے منفرد صبح و شام کرے ۔ جس طرح ہمارے اسلاف کی صبح و شام ہوا کرتی تھی۔ جیسا کہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا اے مجاہد! جب صبح کرے تو تیرے جی میں شام کا خیال نہ آئے اور شام کرے تو دل میں صبح کا خیال مت لا۔ موت سے پہلے پہلے اپنی زندگی سے فائدہ اٹھالے اور بیماری سے پہلے پہلے اپنی صحت سے فائدہ حاصل کر۔ کیا معلوم ! کل تجھے کس نام سے پکارا جائے گا؟چار چیزوں کی نیت:کسی دانا کا قول ہے کہ آدمی صبح کرتا ہے تو اسے چار چیزوں کی نیت کرنی چاہیے :ایک اللہ تعالیٰ کے فرائض ادا کرنے کی ،دوسری جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے رکنے کی ،تیسری معاملات والوں کے ساتھ انصاف کرنے کی اور چوتھی یہ کہ جن کے ساتھ جھگڑا ہے ان کے ساتھ مصالحت کرنے کی ۔ جب ان چار نیتوں پر صبح کرے گا تو امید ہے کہ صالحین میں شمار ہونے لگے اور کامیاب ہو جائے ۔سونے اور اٹھنے کی کیفیت:کسی دانا سے پوچھا گیا کہ آدمی کو اپنے بستر سے کس نیت سے اٹھنا چاہیے؟ فرمایا کہ اس سوال سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ سونا کس نیت سے چاہیے؟ اٹھنے کا سوال تو پھر ہو گا۔ جو سونے کی حالت اور کیفیت سے واقف نہیں وہ جاگنے کا طریق کیا جانے گا؟ پھر فرمایا کہ بندے کو اس وقت تک سونا مناسب نہیں جب تک چار چیزیں درست نہ کر لے :پہلی تو یہ کہ روئے زمین پر اگر کسی شخص کا اس پر کچھ مطالبہ ہے تو اس معاملہ کو ختم کیے بغیر سونا مناسب نہیں ۔ کیا جانے کہ ملک الموت آجائے اور اسی حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی ہو کہ کوئی عذر یا دلیل پاس نہ ہو ۔ دوسری یہ کہ سونے سے پہلے دیکھ لے کہ اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے کوئی فرض میرے ذمہ باقی تو نہیں؟ تیسری یہ کہ سونے سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کر لے ۔ ممکن ہے اسی رات ملک الموت آجا ئے اور توبہ کئے بغیر ہی موت کی آغوش میں چلا جائے ۔ چوتھی یہ کہ سونے سے پہلے اپنی وصیت صحیح اور جائز طریق سے لکھی ہوئی ہو ۔ مباد ا وصیت کے بغیر ہی مرجائے ۔
صبح کرنے کی حالتیں:کہتے ہیں کہ لوگ تین حالتوں میں صبح کرتے ہیں:
۱) کچھ لوگ طلب مال میں۔
۲) کچھ لوگ گناہ کی طلب میں۔
۳) کچھ لوگ صحیح طریق کی طلب میں۔
طلب مال میں صبح کرنے والے اس مقدار سے زیادہ نہیں کھا سکتے جو مقدار اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے مقدر فرمادی ، گومال کتنا ہی جمع کر لیں ۔ گناہ کی طلب کرنے والا ذلت اور رسوائی کا منہ دیکھتا ہے ۔صحیح طریق کے متلاشی کو اللہ تعالیٰ رزق بھی عطا فرماتا ہے اور ہدایت بھی۔بعض حکماء کا قول ہے کہ ہر صبح کرنے والے کو دوباتیں لازم ہیں:امن و خوف ۔ امن تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے رزق کی جو کفالت قبول فرمائی ہے اس پر اطمینان ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے معاملہ میں خوف اور ڈر رکھے تاکہ ان کو اچھی طرح سے ادا کر سکے ۔ بندہ جب یہ دو کام کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دو چیزوں سے نوازتا ہے : اپنے دئیے ہوئے پر اسے قناعت عطا فرماتا ہے اور اطاعت خدا وندی میں لذت محسوس ہوتی ہے ۔اکابر کی صبح:ربیع بن خثیم رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی پوچھتا کہ صبح کس حال میں کی ؟ تو جواب دیتے کہ ہماری صبح تو یہ ہے کہ اپنا ضعف اور گناہ پیش نظر ہیں اللہ کا رزق کھاتے اور موت کے انتظار میں ہیں۔حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ صبح کس حال میں کی ؟فرمایا وہ شخص کیسی صبح گزارے گا جو ایک گھر سے دوسرے گھر جانے کی فکر میں ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ ٹھکانا جنت میں ہے یا دوزخ میں؟کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ اے روح اللہ ! آپ کی صبح کیسی ہے ؟ ارشاد فرمایا صبح کا یہ حال ہے کہ جس چیز کی امید رکھے ہوئے ہوں اس کا مالک نہیں ۔ جس کا خطرہ ہے اسے دفع کرنے کی طاقت نہیں ۔اپنے اعمال کے حال میں جکڑا ہوا ہوں۔ خیر اور بھلائی سب کی سب میرے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اور مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہ ہو گا۔عامر بن قیس رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ تیری صبح کا کیا حال ہے ؟ فرمایا کہ میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ اپنے اوپر گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں دبا ہوا ہوں۔ کچھ پتہ نہیں کہ میری عبادتیں میرے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں یا انعامات الٰہیہ کے شکرانے میں شمار ہو جاتی ہیں؟کہتے ہیں کہ محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے کسی سے حال پوچھا ۔ اس نے کہا کہ اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کے ذمہ پانچ سو درہم کا قرضہ ہے اور وہ عیال دار بھی ہے ؟ یہ سن کر محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ گھر تشریف لے گئے ۔ ہزار درہم لا کر اسے دے کر فرمایا کہ پانچ سو کا قرض ادا کر اور باقی پانچ سو اپنے اہل و عیال پر خرچ کر۔اس کے بعد پھر کسی سے حال نہیں پوچھا کرتے تھے کہ مباد اوہ اپنا ایسا حال بتائے کہ جس کی اصلاح ان کے ذمہ واجب ہو جائے ۔چار چیزوں کا شکر :حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر صبح کرنے والے پر چار چیزوں کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔ پہلا تو بطور شکریہ کہے :’’سب تعریفیں اس ذات کیلئے ہیں جس نے میرے دل کو نور ہدایت سے منور فرمایا اور مجھے اہل ایمان میں رکھا اور گمراہ نہیں کیا ۔‘‘
دوسرا شکریوں کرے :’’تمام تعریفیں اس ذات کیلئے ہیں جس نے مجھے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا امتی بنایا ۔‘‘
تیسرا شکر یہ کرے:’’اس ذات کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے میرا رزق کسی اور کے قبضہ میں نہیں دیا ۔‘‘
اور چوتھا شکریوں کرے:’’سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے میرے عیبوں کی پردہ پوشی فرمائی۔‘‘
چار چیزوں کو جاننا ضروری ہے :حضرت شقیق بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اگر دو سو برس تک زندہ رہے اور ان چار چیزوں کو نہ جان سکے تو کوئی چیز بھی اس سے زیادہ دوزخ کو سزاوار نہیں:ایک اللہ تعالیٰ کی معرفت، دوسرے اللہ تعالیٰ کے عمل کی معرفت، تیسرے اپنے نفس کی معرفت، چوتھے اپنے اور اپنے اللہ تعالیٰ کے دشمن کی معرفت۔ اللہ کی معرفت تو یہ ہے کہ ظاہر و پوشیدہ میں اسی کا فیضان سمجھے کہ کوئی اس کے سوا نہ عطا کرنے والا ہے اور نہ روکنے والا ۔ اللہ کے عمل کی معرفت یہ ہے کہ یہ یقین حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کی رضا کیلئے ہو ۔ اپنے نفس کی معرفت یہ ہے کہ اپنا ضعف پہچانے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرما دیا ہے یہ اسے ذرا بھی رد نہیں کر سکتا ۔ الغرض قسمت خدا وندی پر راضی رہے ۔ اللہ کے اور اپنے دشمنوں کی معرفت یہ ہے کہ اسے شر اور برائی کی اصل جڑ سمجھے اور اس کا علاج معرفت خدا وندی کے ذریعہ سے کرے حتیٰ کہ اس کی قوت کمزور پڑ جائے۔ دس لازم چیزیں:کہتے ہیں کہ ہر روز ابن آدم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس چیزیں لازم ہوتی ہیں : اول یہ کہ اٹھتے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے ۔ ’’یعنی اٹھتے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد کیجئے۔‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کو خوب کثرت سے یاد کرو اور صبح اور شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘دوسری چیز پردہ کے بدن کو چھپانا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اے اولاد آدم ! مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔‘‘اور زینت کا ادنیٰ درجہ ستر عورت ہے ۔تیسری چیز اپنے وقت پر اچھی طرح وضو کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’‘‘اے ایمان والو! جب تم اٹھو نماز کو تو دھولو اپنے منہ او رہاتھ کہنیوں تک اور مل لو اپنے سر کو اور پائوں ٹخنوں تک ۔‘‘چوتھی بات اپنے وقت پر نماز اچھی طرح سے ادا کرنا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :’’یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے ۔‘‘یعنی خاص خاص اوقات میں مقرر کردہ فریضہ ہے ۔پانچویں یہ کہ رزق کے وعدہ میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اور کوئی جاندار روئے زمین پر چلنے والا ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو۔‘‘چھٹی چیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عطا پر قناعت کرے اور اس پر راضی رہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’دینوی زندگی میں انکی روزی ہم نے تقسیم کر رکھی ہے ۔‘‘ساتویں یہ کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور اس زندہ پر توکل رکھیے جو کبھی نہیں مرے گا۔‘‘اور دوسرے مقام پر ’’اور اللہ تعالیٰ پر نظر رکھو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘آٹھویں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور حکم پر صبر کرنا ۔قرآن کریم میں فرمایا :’’اور اپنے رب کی تجویز پر صبر کریں۔‘‘اور دوسرے مقام پر فرمایا :’’اے ایمان والو! خودصبر کرو اور مقابلہ میں صبر کرو‘‘نویں یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کیا کرو ۔ حکم خدا وندی ہے :’’‘‘اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔اور اولین نعمت صحت جسمانی ہے اور سب سے بڑی نعمت دین اسلام کی نعمت ہے گو نعمتیں بے حدو بے شمار ہیں ، جیسا کہ ارشاد ہے :’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو تو نہ گن سکو۔‘‘اور دسویں چیز اکل حلال ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ہم نے جو نفیس چیزیں تم کو دی ہیں ان کو کھائو۔‘‘اس سے مراد رزق حلال ہے ۔اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی صبح و شام اپنے احکامات کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker