آرٹیکل
پروفیسر بشیر حسین جعفری ہمہ جہت سپہ سالارِ ادب تحریر : سردار محمد طاہر تبسم
خطہ کشمیر جنت نظیرنے ایسے گوہر نایاب پیدا کئے ہیں کہ جن کا نام ، کام اور مقام ہر حوالے سے تاریخ میں امر ہو چکا ہے ، حضرت شاہ ہمدا ن ؒ، علا مہ محمد اقبال ؒ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ، غلام احمد مہجور، چراغ حسن حسرت ، کرشن چندر، آغا حسن کشمیری، شورش کشمیری، سید ضمیر جعفری، جیسی کئی نابغہ روزگار شخصیات کا تعلق کشمیر سے تھا ، یہ خطہ ہر دور میں ہر شعبہ زندگی میںنمایاں اور ممتاز رہا ہے اور اس وقت بھی کشمیری دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں ، پروفیسر سید بشیر حسین جعفری بھی انہی نامور و ممتاز شخصیات میں سے ایک ہیں ، ان کاخاندان کشمیر میںروحانی، دینی ، علمی مدارج میں ممتاز و معروف مقام کا حامل ہے، ان کے جدِ اعلیٰ حضرت شاہ منور سچیار ؒ اپنے دور کے عظیم المرتبت روحانی و مذہبی پیشوا تھے، دربار سوہاوہ شریف(باغ) کے جانشین مشائخِ عظام نے تبلیغ واشاعت ِ اسلام ، تحریکِ آزادیِ کشمیراور استحکامِ پاکستان کے لئے بے پناہ خدمات سرانجام دیں، خود بشیر حسین جعفری نے 1947ء میں جہادِ کشمیر کے دوران ایک ننھے مجاہد کی حیثیت سے عملی حصہ لیا، وہ تحریکِ آزادی کے اہم واقعات و سانحات کے چشم دید گواہ تھے، بشیر حسین جعفری 15مئی 1934 ء میں پیدا ہوئے ، میٹرک راولا کوٹ سے کیا، اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی ، 1958ء میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے ملازمت کا آغاز کیا، وہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں اسسٹنٹ رجسٹرار رہے، ان کا زیادہ عرصہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اسلام آباد میں گزرا، جہاں وہ ڈائریکٹر پبلی کیشنز و انفارمیشن تھے اور 14مئی 1994ء کو ریٹائرڈ ہوئے، جعفری صاحب ایک عرصے تک برطانیہ و امریکہ کی یونیورسٹیوں سے بطور وزٹنگ پروفیسر وابستہ رہے، آزاد کشمیر یونیورسٹی اورالخیریونیورسٹی میں پروفیسر ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا اور حکومت آزاد کشمیر نے چیئر مین کشمیر ریسرچ سٹڈی کونسل بھی مقرر کیا، وہ ایک ادارہ انجمن اور دانش گاہ کی حیثیت رکھتے تھے، انہیں امریکن بائیو گرافیکل انسٹیٹیوٹ نے 1997ء میں مین آف دی ائیر کے عالمی اعزاز سے نوازا، آپ نے ساری زندگی قوم و علاقائی اخبارات ، رسائل ، جرائد میں لکھا، ان کے کالم رپوٹس ، تجزیے ، تبصرے، تحقیقی مکالات ان کی بے پناہ صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، علمی و تحقیقی خدمات پر انہیں 46 عالمی وقومی ایوارڈز میڈلز اور انعامات ملے، ان کی کتاب میں تذکرہ جنگِ آزاد کشمیر ، تاریخِ آزاد کشمیر حکومت، تاریخِ مسلم کانفرنس، تاریخِ سدھن قبائل ، مشاھہرِ کشمیر، اور ان کی خود نوشت ، سوانحِ حیات (دوجلدیں) ، زندہ باد ، پائندہ باد، قومی ادب ، تاریخِ ثقافت، سیاست اور سیاحت کے حوالے سے قیمتی ورثہ ہیں، راقم کو ان کی سر پرستی ، رہنمائی، رفاقت اور شفقت حاصل رہی ، ان کی بصیرت و بصارت نے ہم سمیت سینکڑوں افرد کو علم ، قلم ، صحافت اور ادب کے قافلے میں شامل کیا، 1978ء میں انہوں نے ماہنامہ بصیرت کا اجراء کیا تو مختصر عرصے میں یہ جریدہ نہ صرف کشمیر کے دونوں اطراف بلکہ پاکستان بھر اور دنیا کے کئی ممالک میں بھی بے حد مقبول ہو گیا، ان کی تحریروں میں ایسی سحر انگیزی ، میٹھی مدھراور ذود اثرتاثیر اور چاشنی تھی کہ جو پڑھتا وہ ان کی قادر القلمی اور مطالعہ کی وسعت گہرائی کا گرویدہ ہو جاتا ہے، دوست بنانا تو آسان ہے لیکن دوستیاں نبھانا سب سے مشکل کام ہے جعفری صاحب نے ہمیشہ دوستوں کا خیال رکھا اور ان کے مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہے، انہیں ملنے والا ان کے خلو ص، خلق اور بہر علم کا اسیر ہوجا تا ان کی کا میا بیوں میں جہد مسلسل ، عزم و استقلا ل اور جر أت و استقامت کا ر فر ما رہے ان کی سا ری زندگی علمی ، تا ریخی، تہذیبی ،ادبی ، فکر ی اور نظریا تی ور ثے کی آئینہ دارہے ان کی تحریروںمیںآزادیِ کشمیر کا جذبہ ،بقاء پا کستا ن کی امنگ اور قومی سلا متی کا ر فر ما ہے ،وہ ہمیشہ اسلا می اقتدا ر، قو می تشخص ملی افکا ر کیلئے فکر مند دکھائی دیے ،انکی ذاتی لا ئبریری ، یا د گا ر تصا ویر ، تا ریخی دستا ویزا ت ، اخبا را ت ، کتب او رجرا ئدکا بہت بڑا ذخیرہ ہیں ، جس میں نئی نسل کے لئے بہت کچھ مو جو د ہے اور تحقیق و جستجوکے طا لبِعلموں کے لئے ایک ضخیم کتب خا نہ ہے ، جس میں تا ریخ ،تحقیق اور ادب کی تمام دلچسپیاںمو جو د ہیں ، بشیر حسین جعفری ہما ری قو می علمی و ادبی سر خیل تھے بلاشبہ ادبی سپہ سالا ر اور ہمہ جہت قو می شخصیت تھے آخری وقت تک وہ علم و قلم سے جڑے رہے اور اخبارات میں لکھتے رہے، وہ ایک عہد آفرین سر ما یہ تھے وہ گزشتہ سال 21 جنوری کو اپنے
ہزاروں چا ہنے وا لوں کو دا غ ِمفارقت دے گئے، انکی وفات سے جو خلاء پیدا ہو اہے وہ شاید کبھی پو را نہ ہو سکے کیونکہ ایسے جہاندیدہ فکر و عمل کے پیکرروز پیدا نہیں ہو تے ،ویسے بھی اب قحط الرجا ل ہو تا جا رہا ہے ان کے فر زند سید شبا حت حسین جعفری ان کے ورثے کو سنبھا لے ہوئے ہیں اور ان کے دوستوں نے بشیر حسین جعفری ادبی فورم بھی قا ئم کیا ہے جو اچھی پیش رفت ہے ، 21 جنوری کو سید بشیر حسین جعفری مر حوم کی برسی کے مو قع پر ایک خو بصو رت تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے میری حکو متِ پا کستا ن اور حکو مت آزا د کشمیر کے بست و کشا د سے اپیل ہے کہ وہ پر وفیسر بشیر حسین جعفری کی نصف صدی سے زائد علمی ،قلمی، تحقیقی کا وشوں کے اعترا ف میں ان کے لیے قومی ایوارڈ کا اعلان کریں اور اسلا م آبا د یا مظفر آبا د کی کسی شاہراہ کو ان کے نام سے منسوب کیا جا ئے ۔