یو۔کے نیوز
پچیس سال پہلے 8000 بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی یاد میں عالمی کانفرنس
برمنگھم (ایس ایم عرفان طاہر سے ) گیارہ جولائی سنہ 1995 کو بوسنیائی سرب فوجیوں نے بوسنیا ہرزیگووینا میں سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کر لیا۔دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں ان کی فورسز نے منظم انداز میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ کی سرزمین پر بدترین اجتماعی قتل و غارت تھی۔ سربرینیکا کے بین الا قوامی اور بھیانک دن کی یاد اور 25 ویں برسی برطانیہ میں Remembering Srebrenica کے زیر اہتمام آن لائن انجام پائی ۔ جس کی میزبانی کے فرائض تنظیم کے چیئرمین ڈاکٹر وقار اعظمی او بی ای نے سرانجام دیے۔ جبکہ اس موقع پر ورلڈ لیڈرز نے شرکت کرتے ہو ئے اقوام عالم کو تعصب ، عدم برداشت ، انتہاپنسدی، دہشتگردی اور عدم رواداری کے خاتمہ اور عالمی قیام امن کا عالمگیر پیغام دیا۔ اس آن لائن یاداشت میں برطانوی شہزادہ چارلس، وزیر اعظم برطانیہ بورس جانسن، معروف امریکی اداکارہ انجلینا جولی، بوسنیا ہرزیگوینا کے صدر, قائد حذب اختلاف و سربراہ لیبر پارٹی برطانیہ سر کیئر سٹارمر، بوسنیا ہرزیگووینا کے مفتی اعظم ، چیف ربی افرائیم میرویس، آرک بشپ آف ویسٹ منسٹرلندن، سابق صدر امریکہ بل کلٹن، سابق وزیراعطم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون ، لارڈ ولیم ہیگ اور سکریٹری میڈلین البرائٹ نے خصوصی پیغامات دیے۔ برطانیہ میں اس سیاہ ترین دن کے موقع پر ایک ہزار سے زاہد تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ یا د رہے کہ اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے اس حوالہ سے کہا تھا: کہ ’سربرینیکا کا سانحہ ہمیشہ اقوامِ متحدہ کی تاریخ کے لیے ایک بھیانک خواب بنا رہے گا۔ اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ اس دن کی یاد ہماری آنے والی نسلوں تک منتقل کی جا ئے گی تاکہ آئندہ ایسا کبھی بھی نہ ہونے پا ئے۔ ڈاکٹر وقار اعظمی او بی ای نے کہا: "ہمیں فخر ہے کہ ہمارا ملک برطانوی شہزادہ چارلس اور وزیر اعظم بورس جانسن کی اعلی سطح پر حمایت کے ساتھ سریبرینیکا میموریل ڈے منا
رہا ہے۔ انہوں نے تمام شرکت کرنے والی عالمی قیادت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو سربیا میں جو کچھ ہوا، اسے بھول جانے یا اس کی تردید کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہمیں انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ اس المناک واقعے کا شکار لوگوں اور مستقبل کی نسلوں کا یہ ہم پر قرض ہے کہ ہم سربرینیکا کو یاد رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ کبھی اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوسکں۔ سربرینیکا کے قتل عام میں 8000 سے زیادہ مرد اور نوجوان ہلاک ہوئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور 20,000 سے زیادہ خواتین اور بچوں کو زبردستی ملک سے نکال دیاگیا تھا۔ میں اس المناک لمحات کا شکار ہونے والوں کی تعزیت کیلئے آپ کے ساتھ شامل ہونا اور انصاف کیلئے جدوجہد میں ان کی خاندان کے ساتھ کھڑا ہوں۔
بوسنیا ہرزیگونیا کے صدر سیفک دزافیرووک نے اس موقع پر25سال قبل ہونے والے اس سانحے پر اپنے غم اور افسوس کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس حادثہ سے ہمیں ایک ساتھ جمع ہو کر بہیمانہ انداز میں قتل کئے جانے والے اور اس خوفناک واقعے میں زندہ بچ جانے والے بے قصور لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ حادثہ ہمیں سختی کے ساتھ اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم اس عہد کی تجدید کریں اور اس بات کویقینی بنائیں کہ ایسی نفرت اور تعصب کو جو نسلی قتل عام کا سبب بنے، اپنی کمیونٹیز میں نہیں پھیلنے دیں گے۔
برطانوی شہزادہ چارلس، جو مارچ میں سربرینیکا کا دورہ کرنے والے تھے لیکن کورونا وائس کی وجہ سے دورہ ملتوی ہوگیا، نے آن لائن اپنے پیغام میں کہا کہ جولائی 1995 میں جو کچھ ہوا، عالمی عدالتوں نے انھیں قتل عام قرار دیا ہے، یہ قتل عام ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک خوفناک دھبہ ہے، ماضی کے اس دکھ کو یاد کرتے ہوئے اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم سب کو اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ ایسا اب کبھی نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کی سربرینیکا کی یاد جیسی تنظیموں کے کام بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ان ہولناک جرائم کے 25 سال بعد بھی اس طرح کے خوفناک جرائم ہو رہے ہیں، ہمیں ان لوگوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے، جنھوں نے اپنا بہت کچھ کھو دیا، برطانیہ سربرینیکا کے قتل عام کی یاد منانے والا سب سے بڑا ملک ہے، جہاں ہر سال مقامی طورپر کم وبیش 1,000 یادگار ایونٹس منعقد کئے جاتے ہیں اور سالانہ کم وبیش 100,000 نوجوانوں کو سربرینیکاکے واقعے سے سبق حاصل کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔
ہالی ووڈ کی ممتاز اداکارہ انجلینا جولی، جوکہ اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق کمشنر کی خصوصی ایلچی کے طورپر اپنے کام کے حوالے سے بہت مشہور ہیں، نے اس موقع پر خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ آج میں سربرینیکا کی ان مائوں اور دیگر بچ جانے والوں کے بارے میں سوچتی ہوں، جن کے شوہر، بھائی اور بیٹے 25 سال قبل قتل عام میں قتل کردیئے گئے، یہ بوسنیا کے عوام کا ایسا نقصان ہے، جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، میں بوسنیا کے عوام
کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی ہوں، میں ان کا احترام کرتی ہوں اور میں ان کیلئے غمزدہ ہوں۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا کہ سربرینیکا کے واقعات سے کشیدگی اور تنازعات سے
جنم لینے والی دہشت نے دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں اور اس کے بعد جنگوں کی روک تھام کی کوششوں میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج ہمیں سربرینیکا کے سانحے کی یاد مناتے ہوئے یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم آئندہ کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ واقعہ مجھے ہر وقت غمزدہ رکھتا ہے اور ہر موقع پر پوری دنیا میں اپنی آواز اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے دکھ کے حوالے سے بلند ہونے والی آواز میں آواز ملانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
برطانوی قائد حذب اختلاف اور لیبر پارٹی کے سربراہ سر کیئر اسٹارمر نے سربرینیکا میں 8000 مسلمانوں کے قتل عام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ بات انتہائی ناقابل فہم معلوم ہوتی ہے کہ صرف 25 سال قبل ہمارے براعظم میں اس طرح کا غیر انسانی قتل عام ہوا۔ جسے اقوام متحدہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سرزمین پر بدترین جرم قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا بوسنیا کی سرزمین پر 8000 مسلمان مردوں اور نوجوانوں کے قتل عام کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔
’’ریممبرنگ سربرینیکا یوکے‘‘ کے چیئرمین ڈاکٹر وقار اعظمی او بی ای نے کہا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے ملک برطانیہ میں شہزادہ چارلس، وزیراعظم بورس جانسن جیسی اعلیٰ ترین سطح کے تعاون سے سربرینیکا کی 25 ویں برسی ماضی کی طرح عزت و احترام سے منائی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری پوری قوم اس یادگار کو منانے کیلئے ایک تھی، اس طرح کے یادگاری دن عام برطانوی شہریوں کو ماضی کی یاد دلانے کیلئے اکٹھا کرتے ہیں اور اس سے ہمیں زیادہ مضبوط ایک دوسرے کے ساتھ منسلک تعصبات سے پاک معاشرہ بن کر ابھرنے میں مدد ملتی ہے اور اس سے ہماری نئی نسل کو یہ یقین دلانے میں مدد ملتی ہے کہ نفرت کا خاتمہ ضروری ہے۔