آرٹیکل

آزادکشمیرشعبہ تعلیم کا تنقیدی جا ئزہ تحریر: شمائلہ انور

Shumaila Anwar

میری آج اتفاقا” سوشل میڈیا کے ایک صفحے پرنظر پڑی جہاں ایک صاحب آزادکشمیرکے نومنتخحب وزیراعظم کا بڑے پرجوش انداز میں خیرمقدم کر رہے تھے۔ ان کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ ” مظفرآباد کی عوام انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشنBISE کے بورڈ کے مظفرآباد میں قیام پر ہز ایکسی لینسی راجہ فاروق حیدر خان وزیراعظم آزاد ریاست جموں و کشمیر کا شکریہ ادا کرتے ھیں۔ یہ انتہائی ضروری اقدم نوجوانوں کو حصول تعلیم میں بہت معاون ثابت ہو گا۔بلاشبہ یہ اقدام تعلیم کے شعبہ میں اہمیت کا حامل ھے لیکن کیا ایک اور بورڈ کا قیام آزادکشمیرکے نظام تعلیم اور میعار تعلیم کوخودبخود بہتر بنا دے گا؟ کیا آزادکشمیر کے ہر بچے کوحصول تعلیم تک رسائی میسر ھو سکے گی؟کیا برسوں پرانے تعلیمی نصاب میں کوئی بہتری آ سکے گی؟ اور کیا اساتذہ کو سفارش کی نہیں بلکہ میرٹ کی بنیاد پرتعینات کیا جائے گا؟دور جدید میں ایک اچھے معیار کی زندگی گزارنے کے لیے دیگر مبادیات کے ساتھ ساتھ ، تعلیم بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک با الخصوص جنوبی ایشیا کے خطے کے لوگوں میں بنیادی تعلیم غربت کے خاتمے ،عدم مساوات کو کم کرنے ، عدل و انصاف کے قیام اور معاشی ترقی کا سفرطے کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔لیکن مجھے افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہےکہ اول تو آزادکشمیر کے ہربچے کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں اور جو بچے سکول چلے بھی جاتے ھیں ان کو ناقص معیار تعلیم کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہمارا  نظام تعلیم مؤثر نہیں ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ ایک تو جدید نصاب کا نہ ھونا اور دوسرا اساتذہ کی نااہلی ہے۔میں اس بات کو یوں سمجھانا چاہوں گی کہ ہمارے ہاں شاگردوں کوکتاب میں فراہم کردہ معلومات خود جاننے یا خود سوچنے کے بجائے رٹا لگوایا جاتا ہے۔اور رٹا لگانے کی وجہ سے بچے تجزیاتی مطالعہ کرنے، خود سے مسائل حل کرنے اورمعنی خیز جملے بنانے اور خودی کے جذبہ سے ہی قاصر رہتے ہیں۔ اسکی وجہ اساتذہ کا تقرر میرٹ پرنہ ہونا اور انکے ٹرینگ سیشنز کا انعقاد نہ کرنا ہے۔آزادکشمیر میں اس وقت تعلیم کا معیار ناقص ترین اور دوہرا ہے۔ ہم نے خود تعلیم کے ودہرے معیار کو پیدا کیا ہے یعنی لوگوں کے مختلف طبقوں کے لیے مختلف معیار تعلیم بنا دیے مثال کے طور پر درمیانےاور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کے لیے مہنگی اور معیاری تعلیم اور چونکہ نچلے طبقے کے لوگ مہنگے سکولوں کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے تو نتیجاتا” انکے بچے معیاری تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں۔ میں حکومت وقت کو یہ باور کروانا چاہتی ہوں کہ گورنمنٹ تعلیمی نظام میں” رٹے” کو ختم کرنے کے لیےمخصوص اقدامات اٹھائےاور ایسا عملی نظام متعارف کروائے کہ جسکی وجہ سے ہر طالب علم مختصروقت کے لیے سب کچھ حفظ کرنے کی بجائے تحقیق کرسکے اور زیادہ علم جذب کرنے کی صلاحت بڑھائےیہ علم ایک مخصوص دورانیہ تک اسکے پاس محفوظ نہ رہے بلکہ دائمی علم کی حیثیت اختیار کر جائے۔حکو مت کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنائےکہ آزادکشمیرکا ہر بچے اور نوجوان کا معیار تعلیم مشترکہ ہو۔ پرائیوٹ اورسرکاری سکولوں اور کالجوں  میں ایک نصاب لاگو کرے نہ کہ دوہرا معیاربرقرار رکھتے ہوئے پرائیوٹ شعبوں میں آکسفورڈ کا نصاب اور حکومتی شعبوں میں ٹکسٹ بورڈ کا نصاب شامل کیا جائے۔ میں حکومت کی توجہ تاریخ کے نصاب کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتی ہوں جس میں سے تاریخ کشمیر کو ایسے نکال دیا گیا ہے جیسے چائےسے مکھی اور دودھ سے بال نکالا جاتا ہے۔کہا جاتا ھیکہ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتی ہیں جو اپنے ماضی کو بھلا دیتی ہیں ۔ ماضی کو مد نظر رکھتے ہو ئے حال کو سنوارنا اور اپنے مستقبل کو بہتر بنانا بھی لا زم ہے۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ کشمیر کی جواں سال اور آمدہ نسلوں کو اپنے بیتے ہوئے کل یعنی ماضی کے ساتھ جوڑا جائے۔طور مسلمان بھی ہما را یہ طرہ امتیا ز ہے کہ جتنا بھی ہم ماضی کے قریب جائیں گے تو انتا ہی بھلائی اورتعمیر و ترقی کا راستہ نصیب ہو گا اگر سوچا پرکھا جا ئے اور دوسرے مذاہب اورتہذیبوں سے موازنے کا موقع پیسر ہو تو یہ عظمت و غلبہ ہما رے دین اسلام کو حاصل ہے کہ دوسرے مذاہب اپنے ماضی کو بیانں کرتے ہو ئے اور اسکا حال سنا تے ہو ئے شرماتے اور گھبراتے ہیں جبکہ تاریخ اسلام ماضی کی تا ریکیوں میں زیادہ روشن اور نمایاں دکھائی دیتا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اسے بیان کرتے اور حوالہ پیش کرتے ہو ئے فخر محسوس کرتے ہیں آخرمیں اساتذہ کے حوالے سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ انکی سلیکشن میرٹ پر کی جائے اور رفتہ رفتہ انکی ووکیشنل ٹرینگز کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ تعلیم کے جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہو ۓئے طالبعلموں کو مستقبل کے لیے تیار کر سکیں۔خدارا علم کو محض زریعہ معاش تک محدود نہ کیا جا ئے بلکہ اس کے زریعہ سے حقیقی معنوں میں کردار افکا ر اور اخلاق کی بنیا د ڈالی جا ئے جس سے نہ صرف انتہا پسندی دہشتگردی فرقہ پرستی بد امنی نا اتفاقی نفرت بغاوت جنگ و جدل تصادم اور بہت سی منفی سرگرمیوں کا نا سور با آسانی مٹایا جا سکتا ہے بلکہ انسانی معراج کے حصول کا حقیقی اور آفاقی راستہ ہی علم و ادب سے وابستہ ہے ۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker