آرٹیکل

تاریخ کشمیر کے دو نا قابل فراموش کردار

 

تاریخ کشمیر کے دو نا قابل فراموش کردار

ریاست جموں و کشمیر میں پونچھ کو ہر دور میں اہم حیثیت حاصل رہی ہے جواب تک قائم ہے یہاں کے باسیوں نے حریت ،جانباری اور جوانمردی کی ایس انمٹ مثالیں چھوڑی ہیں جنکی نظیر ملنی محال ہے ہر شعبہ زندگی میں اس مردم خیز نے نامور شخصیات کو جنم دیا جنکی بے مثل اور ورطہ حیر ت میں ڈالنے والی قر بانیوں اور جدوجہد کی حکایات رہتے زمانے تک درخشاں اور تابندہ رہیں گی-

پونچھ کی علیحدہ حیثیت طویل عرصے تک قائم رہی تاآنکہ مہا راجہ ہری سنگھ نے 1938 میں ریاست پونچھ کو ختم کر کے اسے جاگیربنا دیا یہا ں کے لوگو ں کا زیادہ تر آپیشہ سپہ گری اور کھیتی باڑی رہا ہے پونچھ ہمیشہ شورشوں کی زدمیں رہا ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے حکمرانوں کو ہر دور میں شدید مشکلات رہیں مہا راجہ رنجیت سنگھ نے 1814 اور 1818 میں پونچھ پر دو مر تبہ چڑ ھائی کی لیکن اسے ناکام واپس لوٹنا پڑا انگریز مورخ میجر کارمائیکل سمتھ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ 1832 میں پونچھ کے حاکم سردار شمس خان جسکا تعلق سدھن )سدوزئی (قبیلے سے تھا کے ساتھ مہا راجہ گلاب سنگھ کی جنگ میں سدھنوتی کے 35ہزار لوگ شہید ہو ئے کتاب میں سدھنوتی کے بغاوت کے باب میں اس نے لکھا ہے کہ اس لڑائی میں سینکڑوں عورتوں ،بچوں اور مردوں کو مہا راجہ نے قیدی بنا کر جموں بھیجا جن میں سے اکثریت کو مار دیا گیا –

سردار شمس خان لاہور دربار میں وزیر امور خاص رہا آپ راجی کے اس دور میں ڈوگر ہ حکمرانوں کو ہمیشہ پونچھ سے خطرہ رہا اور وہ پونچھ کے پہاڑی علاقوں کو زیر نگیں اور فتح کرنے کے لیے ہمیشہ ناکام کو ششیں کر تے رہے کیونکہ انہیں پونچھ میں بسنے والے جری اور بہادر قبائل سے واقفیت تھی ڈوگر ہ حکمران نے پونچھ پر حملہ کی ٹھانی تو سردار شمس خان وزار ت سے مستعفی ہو کر اپنے گاؤں سردی بہال گراں )منگ ( واپس آگئے اور برادری علاقے کے بااثر اور سرکردہ سرداروں کو گلاب سنگھ کے حملے سے باخبر کیا اور ان کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا یہ کشمکش 1818 سے 1838 تک جاری رہی مہا راجہ گلاب سنگھ نے کہو ٹہ راولپنڈی کی طرف سے حملہ کیا تو اہل پونچھ نے سردار شمس خان کی سر کر دگی میں اس کا جرات مندی سے مقابلہ کیا اور ہر جگہ بے جگری سے لڑتے رہے شمس خان اور ان کے خصوصی معاونین سردار ملی خان ،سبز علی خان ، سردار مہدی خان اور ان کے ساتھی گرفتار کر لیئے گے ان کی گرفتاری سدھہ ون کے راٹھور راجہ شیر باز خان کی منجری پرھو ئی کیونکہ یہ سب سردار اس وقت اسکی پنا ہ میں تھے سردار شمس خان کا سر قلم کر کے شہید کر دیا گیا شمس خان اور ان کے بھتیجے سردار راجولی خان کے سر گلاب سنگھ اپنے ساتھ پونچھ لے گیااور یہ دونوں سروہاں ادھ ٹیک پہاڑی پر تین سال پنجرے میں رہے تاکہ پونچھ کے سدھن اس سے عبرت حاصل کریں اس دور میں بھی میر جعفر اور میر صادق موجود تھے-

جنہوں نے ان عظیم حریت پسند سرداروں کو دشمن کے حوالے کرنے میں مدد کرکے جاگیریں حاصل کیں کر پا رام نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دو روز میں سردار ملی خان سبز علی خان اور اس کے ساتھیوں کی منگ کے مقام پر وہ درخت اب بھی موجود ہے جہاں یہ سانحہ ہوا زندہ کھالیں کھنچو ائیں پھر انکا گلہ کاٹ کر انکی کھالوں میں بھوسہ بھرا گیا او درخت کے ساتھ لٹکا یا گیا تا کہ پونچھ کے لوگ عبرت حاصل کریں ان کی اولاد کو جان کی امان دے دی گی مورخین نے زندہ کھالیں کھنچوائے جانے والے سرداروں کی تعداد متضاد لکھی ہے کتابوں میں یہ تعداد 45،14اور 80لکھی ہے واﷲ اعلم بالصواب-

ڈوگر ہ مہاراجاؤں کا خیال تھا کہ ان فر سا اور سنگدلانہ واقعات کے بعد پونچھ کا کوئی سردار ان سے ٹکر نہیں لے گا اور نہ سر اٹھائے گا لیکن نصف صدی کے بعد بھی کھڑک کے جری و بہادر لیڈر سردار بہادر علی خان نے 1898 میں تحریک حقوق ملکیت کا آغاز کیا تو دور و نزدیک کے عوام و خواص اور با اثر سرداروں نے انکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انکا بھر پور ساتھ دیا ڈو گر حکمران نے سازش کے ذریعے انہیں زہر دیکر شہید کردیا لیکن اہل پونچھ کو لاہو رہا ئی کوٹ کے فیصلے میں ارافیات کے مالکانہ حقوق مل گئے کشمیر کامہا راجہ ہری سنگھ 23مارچ 1947 کو بابائے پونچھ کرنل خانصاحب کی دعوت پر راولاکوٹ کے دورے پر آیا تو 30ہزار سے زائدسابق فوجیوں نے سے سلامی دی تھی راولاکوٹ میں تجربہ کار تربیت یافتہ فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر مہا راجہ ہری سنگھ حواس باختہ ہو گا اور رات کے اندھیرے میں وہاں سے نکل کر واپس چلاگیا اس نے پونچھ میں ڈوگر ہ فوج کی تعداد دوگنا کر کے انہیں جدید اسلحہ فراہم کیا اور تراڑ کھل پلندری منگ تھوراڑ آزاد پتن باغ اور دھیر کوٹ میں پختہ فوجی مورچے تعمیر کرائے اور فوجی چھاؤنیوں میں اضافہ کیا ڈوگرہ فوج نے عوام کا جینا محال کر دیا اور ہرطرف لوٹ مار شروع کردی عوام کو ہراساں اور خوفرزدہ کرنے حربے آزمائے اس صورتحال نے برطانوی فوج سے) ر (کیپٹن حسین خان کو ڈوگروں کے خلاف مسلح جہاد کرنے پر مجبور کیا انہوں نے با بائے پونچھ کو قائل کیا کہ ڈوگروں کے خلاف بندوق اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں سے اس پر مشاورت کی گی جہاد کونسل قائم کی گی جسکے چیئرمین بابائے پونچھ مقرر ہوئے تاکہ مجاہدین کو باقاعدہ تربیت دے کر جہاد کے لیے منظم کیاجائے اس وقت پونچھ میں سابق اور موجود فوجیوں کی تعداد 40ہزار کے لگ بھگ ہے-

1947 ء میں ڈوگرہ مہا راجہ نے باغ میں مزید فوج بھجنے کا حکم دیا تو باغ کے گردیزی سادات کے جرگے نے اپنے سپہ سلار کیپٹن حسین خان کوخط لکھا کہ ’’ڈوگرہ فوج کو اپنے علاقے سے نہ گزرنے دیں انکو باغ پہنچنے سے پہلے روکیں۔ کیونکہ اگر یہ فوج باغ آگئی تو ایک مرتبہ پھر 1832 کی تاریخ دھرائی جائے گی۔قتل عام ہوگا خواتین کی بے حرمتی کی جائے گی اور ایک مرتبہ پھر ہمارا تشخص برباد ہوگا‘‘-

کیپٹن حسین خان نے یہ خطہ پڑھتے ہی اپنے مجاہدین کو ہدایت کی کہ ڈوگرہ فوج کو روکیں ۔29 اگست1947 ء کو یہ فوجی دستے ہجیرہ سے آگے پہنچے تو مجاہدین جو دوتھان،راولاکوٹ کے مقام پر پہاڑ کے دامن میں گھات لگا کر بیٹھے تھے جن کی قیادت مسلم نیشنل گارڈ کے کمانڈر کیپٹن محمد اشرف خان کررہے تھے۔نے ڈوگرہ فوج پر یکدم حملہ کردیا اور دست بدست لڑائی بھی ہوئی۔زبردست معرکہ میں پانچ جانباز شہید ہوگئے اور ڈوگرہ فوج کا باغ جانا مشکل ہوگیا۔دوتھان کا معرکہ جہاد کشمیر کا نقطہ آغاز بنا جہاں پہلی گولی چلی اور وہیں سے عملی جہاد شروع ہوا۔اور وہ شہید آزادکشمیر کی آزادی کے پہلے شہید ہیں جہاں حکومت آزاد کشمیر نے ایک خوبصورت یاد گار قائم کی ہے 15اگست کو راولاکوٹ ،23اگست کو نیلابٹ کے مقامات پر صرف جلسے ہوئے اور وہاں سے عوامی تحریک کا آغاز ہوا۔

یکے بعد دیگرے اس کے بعد کشمیر میں جہاد کا آغاز ہوا۔اور منگ ،تھوراڑ،راولاکوٹ،پلندری،تراڑ کھل،ہجیرہ،باغ،دھیرکوٹ،میرپور،کوٹلی،بھمبر اور مظفر آباد میں معرکے ہوئے اور مجاہدین ونہتے عوام اور خواتین نے ٹوپی دار بندوقوں کلہاڑیوں ڈنڈوں اور درانتوں اور سب بڑھ کر جذبہ ایمانی کے ساتھ ان علاقوں کو ڈوگرہ فوج سے آزاد کرایا جس میں قبائلی عوام نے بھی بھرپور حصہ لیا۔

قبل ازیں مری میں تحریک کے قائد غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے تمام علاقوں کے فوجی کمانڈروں اور ریٹائرڈ فوجی افیسران کا خفیہ اجلاس بلا یا جس میں مشاورت کے بعد مرکزی وار کونسل تشکیل دی گی جس میں کیپٹن حسین خان کو راولاکوٹ کا کمانڈر بنایا گیا انکے ساتھ کیپٹن رحمت اﷲ اور کیپٹن چنوخان کیپٹن حسین خان گوراہ باغ کے کمانڈر سردار عبد القیوم خان او ران کے ساتھ پیر علی اصغر شاہ کوٹلی سیکٹر کے کمانڈر کرنل شیر احمد خان انکے ساتھ سخی دلیر خان،میرپور سیکٹر کے کمانڈر کرنل خان محمد خان آف منگ،انکے ساتھ کیپٹن دلاور خان،کیپٹن راجہ افضل خان مقرر کیے گے جبکہ ہجیرہ بلوچ میں کیپٹن ہدایت خان تراڑ کھل میں میجر محمد حسین کہالہ کمانڈر بنائے گے۔اس جہاد میں تمام قبائل برادریوں اور علاقوں نے ڈوگروں سے آزادی کیلئے تن من دھن اور جانیں قربان کیں۔ہرانچ پرسر زمین پر خون بہاتب یہ خطہ آزاد کشمیر آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوا۔

بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان المعروف خان صاب 1882 ء میں چھے چھن ضلع سدھنوتی میں پیدا ہوئے انکے والد محترمہ حاجی مہندا خان نے تحریک حقوق ملکیت میں اہم کردار ادا کیا۔آپ تعلیم کے بعد برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور صوبیدار کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔اسکے بعد انکی ساری زندگی سیاسی وسماجی خدمت اور فلاحی واصلاحی تحریکوں میں گزری۔وہ 1932 میں کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور1946 ء تک کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔غازی ملت بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان کو اپنی نشست سے رکن اسمبلی منتخب کرایا اور ریاست کے عوام میں متعارف کرانے کا سہرہ بھی انہی کے سر جاتا ہے۔دوسری جنگ عظیم میں انکی مثالی کارکردگی کی بنیاد پر برطانوی حکومت نے انہیں’’خان صاحب ‘‘کے خطاب سے نوازا۔1932 ء میں معروف اور قدیم سماجی تنظیم سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد کھی جسکا مقصد ریاست میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ اور اصلاح معاشرہ تھا۔جامعہ تعلیم القرآن پلندری قائم کیا۔انسانیت کی خدمت ان کا مشن رہا۔معاشرتی برائیوں ہندوارنہ رسوم ورواج سود نسوار تمباکو نوشی کے خلاف نبردآزمارہے۔بلا شبہ وہ رباست جموں وکشمیر کے عظیم مصلح اور آزاد کشمیر کے بانی رہنماؤں میں سے تھے آزاد خطہ کو ڈوگروں سے آزادی کیلئے خان صاحب غازی ملت اور عظیم سپہ سالا حسین خان شہید نے کلیدی او ربنیادی کردار ادا کیا۔جہاد کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے تو آزاد کشمیر فوج کی تنظیم نو کی۔1947 ء کے جہاد کشمیر میں انکی اہنی ناقاببل فراموش خدمات کے عوض انہیں کرنل کا عہدہ دیا گیا۔وہ ایک نیک ،جہاندیدہ عمل کو کردار کے پیکر اور عبادت گزار شخصیت تھے۔11 نومبر 1961 ء کو انتقال فرماگئے۔انکے فرزند کرنل نقی خان کشمیر کے معروف سیاستدان تھے ۔انکی وفات کے بعد خان صاحب کے پوتے ڈاکٹر نجیب نقی کئی مرتبہ ممبر اسمبلی وزیر اور ممبر کشمیر کونسل رہ چکے ہیں موجودہ اسمبلی کے بھی رکن ہیں۔

جہاد آزادی کشمیر کے بانی سپہ سالار فوجی منصوبہ ساز اور عظیم حریت پسند جرنیل حسین خان شہید مئی 1897 میں کالاکوٹ موجودہ نام حسین کوٹ،راولاکوٹ میں پیدا ہوئے۔تعلیم کے بعد برطانوی فوج میں بھرتی ہوگے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے کیپٹن کے عہدے پر پنشن لی۔انکی فوجی مہارت اور منصوبہ بندی مشہور تھی۔کئی عالمی اعزازات سے نواز ے گے۔ریٹائرڈ منٹ کے فوری بعد کشمیر کی آزادی کی تیاری میں مصروف ہوگے۔ڈوگرہ مہاراجہ کے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف برطانوی وائسرائے لارڈ دیول سے بھی ملاقا تکی لیکن جب ظلم کم نہ ہوئے تو ھری سنگھ کے خلاف بندوق اٹھانے کا عزم مصمم کرلیا۔تمام علاقوں کے دورے کیئے ،بااثر شخصیات کو جہاد شروع کرنے کیلئے آمادہ کیا۔سب سے پہلے انہوں نے اپنی تمام جمع پونجی سے ہتھیار خرید کر مجاہدین میں تقسیم کیئے اور جنگ کی ساری منصوبہ بندی تیار کی۔اس معاملے میں انہوں نے کرنل خان صاحب ،کرنل خان آف منگ اور غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان سے ہر موقع پر مشاورت کی۔جہاد کے آغاز سے ہی وہ ہرمحاذ پر دوڑتے رہے اور مجاہدین کی رہنمائی کی۔آزاد پتن پر ڈوگرہ فوج کا پہلا حملہ انہی نے ناکام بنایا بعد میں راجہ سخی دلیر بھی شامل ہوگے۔وہ2 اکتوبر سے 11 نومبر 1947 ء تک رات دن جاگ کر ڈوگروں سے لڑتے رہے اس دوران منگ ،تھوراڑ،راولاکوٹ،دشمن سے آزاد کرایا۔اور پورے کشمیر کی آزادی کی تڑپ انکے دل وجاں میں بسی ہوئی تھی ڈوگرہ فوج سے مردانہ وار لڑتے ہوئے 11 نومبر1947 کو تولی پیر محاذ کا بل گلہ کے مقام پر شہید ہوئے۔عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کیپٹن حسین خان زندہ رہتے تو آج کشمیر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔انکے ذکر کے بغیر تاریخ کشمیر مکمل نہیں ہوتی۔جسٹس یوسف حراف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’کیپٹن حسین خان جہاد کے دوران راولپنڈی سے 3 مارٹر گنیں خرید کر لائے تھے اور فوجی انکو کندھے پر لاد کر پنجاڑ سے راولاکوٹ تک لائے۔جنکی گھن گرج سے ڈوگرہ فوج طلملا کر بھاگ کھڑی ہوئی۔‘‘انکی زندگی کا مشن بھی کشمیر کی مکمل آزادی اور اسکا پاکستان میں شامل ہونا تھا۔کیپٹن حسین خان نے جو وعدہ کیا تھا وہ نے کر دکھایا جوانہوں نے جہاد آزادی سے قبل پنجاڑ )تحصیل کہوٹہ ۔راولپنڈی ( میں فوجی اور سیاسی اجتماع میں کیاتھا جس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ میں اس مجمع میں اعلان کر تا ہو ں کہ میں یہ ہری سبز وردی پہنے ہو ئے آپ کے سامنے کھڑا ہوں اس وقت تک اتاروں گا جب دشمن کو کشمیر کی آخری حد کھوئی رٹہ سے باہر نہ نکال دوں-

ان کی شہادت سے آزادی کشمیر کو ناقابل نقصان ہو ا ان کے اندر آزادی کی چنگاری شعلہ جوالہ بن چکی تھی اور ان کے لیے انہوں نے اپنی زندگی اپنی دکھایااور آرام سب کچھ قربان کردیا ایسے عظیم جرنیل قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جو مستقبل کی نسل کے لیے اپنا حال قربان کردیں –

بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان اور عظیم کیپٹن حسین خان شہید کی برسی ہر سال 11نومبر کو شایان شان طریقے سے منائی جاتی ہے اس روز سرکار تعطیل ہو تی ہے اورکئی بڑی تقاریب کا اہتمام ہوتاہے مرکزی تقاریب دونوں نابغہ روز گار شخصیات کے مزارات پر انقعاد پذیر ہو تی ہیں جس میں مقررین اور نمائندگان انکی قومی عسکری خدمات اورقربانیوں پر انہیں خراج عقیدت پیش کر تے ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ شہید کشمیر کیپٹن حسین خان کی جائے شہادت پر قومی یادگار تعمیر کرے اور راولاکوٹ میں ان کے نام سے منسوب ملٹری کالج قائم کیاجائے نیز راولاکوٹ یا پلندری میں فوجی میوزیم قائم کیا جائے جس میں 1947 کے جہاد کے اہم شوائددستاویزات اور انکے کمانڈروں زیراستعمال اشیاء کو محفوظ کیاجائے نیز یونیورسٹی لیول پر ایسی قومی شخصیات کو نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل اپنے اسلاف اور ان کے مقدس مشن سے پیو ستہ رہے اور جذبہ آزادی کو مہمیز ملتی ر ہے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker