آرٹیکل
دس رمضان المبارک حضرت خدیجہ کی وفات کا دن
دس رمضان المبارک کو تاریخ ایک تلخ اور ناگوار واقعہ کی یاد دلاتاہے۔آج کے دن دنیا سے ایک جانثار زوجہ اور مہربان ماں حضرت خدیجہ (س) کی وفات کا دن ہے۔آپ نے اسلام کے لئے بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں۔مسلمانوں پرآپ کا بڑا احسان ہے۔ حضرت خدیجہ بنت خویلد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی پہلی بیوی تھیں جو کہ عرب اور اسلام کی نہایت با فضیلت خاتون تھیں۔آپ جاہلیت کے زمانے میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔حضرت خدیجہ، سخاوت،حسن معاشرت،، صداقت اور شوہر کے نسبت وفا و محبت میں بے نظیر تھیں۔ اس زمانے میں آپ طاھرہ اور سیدالا نساء قریش کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ اور پھر اسلام میں جنت کی چار خواتین میں سے ایک قرار پائی اور آپ ہی کی بیٹی حضرت فاطمہ زھراکے سوا کوئی خاتون اس مقام کو نہ پہنچ سکی ہے۔
حضرت خدیجہ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے پہلے ھند بن بناس تمیمی ”ابوھالہ ”اور اسکے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے نکاح میں تھی۔ دوسرے شوہر کے مرنے کے بعد حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا نے اپنی درایت اور عقلمندی سے تجارت کو کافی فروغ دیا اور عرب کی امیر ترین عورت بن کر ابھریں اور تجارت کے قافلوں کے قافلے شام وغیرہ بھیجا کرتی تھی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے چاچاحضرت ابو طالب کے کہنے پر حضرت خدیجہ (س) کے کاروبار میں شرکت کی اور حضرت خدیجہ(س)کو کافی منافع کما کردیااور ان کے دل میں آنحضرت کے نسبت محبت پیدا ہوئی اور آخر کار دونوں کا آپس میں نکاح ہوا۔
حضرت خدیجہ کبری (س) کے پیغمبر اسلام (ص) سے چھے فرزند دو بیٹے قاسم اور عبداللہ جو کہ طیب اور طاھر کے نام سے معروف ہیں اور بیٹیاں زینب، رقیہ،ام کلثوم اور حضرت فاطمہ زھراء تھے۔ ان فرزندان میں حضرت فاطمہ زھراء(س) بعثت کے بعد پیدا ہوئی اور وحی کی فضا میں آنکھیں کھولی ہیں۔
حضرت خدیجہ کبری (س) کوحضور اکرم ﷺ سے خاص محبت تھی اور جب آنحضرت مبعوث بہ رسالت ہوئے تو اپنا سارا سرمایہ آنحضرت کے اختیار میں دیا تاکہ اسلام کے کام آجائے۔حضرت خدیجہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور اس راہ میں قریش کی طرف سے ڈھائے جانے والے مصائب تحمل اور بردباری کے ساتھ برداشت کئے۔جب تک زندہ تھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے دل کا سکون تھی اور شعب ا بی طالب میں جلاوطنی کے شدید ترین دورمیں آنحضرت کا ساتھ نہ چھوڑا اور تمام وجود کے ساتھ انکی حمایت کرتی رہیں۔
پیغبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت خدیجہ (س) کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم میرے پروردگار نے خدیجہ سے بہتر کسی کو نصیب نہ کیا کیونکہ جب لوگ کفرمیں تھے اس نے مجھ پر ایمان لایا، جب لوگ مجھے جٹھلاتے تھے،وہ میری تصدیق کررہی تھی؛ جب لوگوں نے مجھے محروم کیا اس نے اپناسارا سرمایہ میرے اختیار میں رکھا۔ خدا نے اسکے ذریعہ مجھے اولاد عطا کی جبکہ دوسری بیویوں سے یہ کچھ نصیب نہ ہوا۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت خدیجہ کو بہت یاد کرتے تھے۔ حافظ ابن کثیر نے مختلف لوگوں سے روایت لکھی ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سامنے حضرت خدیجہ کو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف فرمائی تو حضرت عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر حضرت عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔ اس کے بعد حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میری زبان سے یہ کلمات سن کر آپ کا رنگ اس طرح متغیر ہو گیا جیسے وحی کے ذریعے کسی غم انگیز خبر سے یا بندگانِ خدا پر اللہ کے عذاب کی خبر سے ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ
ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے بطن سے مجھے اللہ تعالٰیٰ نے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا جب کہ میری کسی دوسری بیوی سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(جو زندہ رہتی)
حضرت خدیجہ نے پینسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی اس وقت آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس کی تھیں۔جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات ہوئی تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پریشان تھیں اور اپنے پدر بزرگوار کے گردگریہ وزاری کے ساتھ چکر لگا کراپنے والد سے ماں کے بارے میں پوچھ رہی تھیں،حضرت فاطمہ اتنی زیادہ پریشان تھیں کہ جبرائیل پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئے اور فرمایا کہ اے رسول فاطمہ کو سلام پہنچادیجئیے اور کہہ دیجئیے کہ آپ کی والدہ بہشت میں ہیں۔
حضرت خدیجہ کی قبر مکہ میں قبرستان حضرت ابوطالب میں ہے جس میں حضرت عبدالمطلب حضرت ابوطالب اور حضرت عبد مناف بھی دفن ہیں۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کم مدت میں دو عظیم حامی ابوطالب (ع)اور خدیجہ کبری(س) کو کھو بیٹھے اور اس وجہ سے کافی غمگین تھے۔ اور اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) نام دیا گیا۔
حضرت خدیجہ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے پہلے ھند بن بناس تمیمی ”ابوھالہ ”اور اسکے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے نکاح میں تھی۔ دوسرے شوہر کے مرنے کے بعد حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا نے اپنی درایت اور عقلمندی سے تجارت کو کافی فروغ دیا اور عرب کی امیر ترین عورت بن کر ابھریں اور تجارت کے قافلوں کے قافلے شام وغیرہ بھیجا کرتی تھی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے چاچاحضرت ابو طالب کے کہنے پر حضرت خدیجہ (س) کے کاروبار میں شرکت کی اور حضرت خدیجہ(س)کو کافی منافع کما کردیااور ان کے دل میں آنحضرت کے نسبت محبت پیدا ہوئی اور آخر کار دونوں کا آپس میں نکاح ہوا۔
حضرت خدیجہ کبری (س) کے پیغمبر اسلام (ص) سے چھے فرزند دو بیٹے قاسم اور عبداللہ جو کہ طیب اور طاھر کے نام سے معروف ہیں اور بیٹیاں زینب، رقیہ،ام کلثوم اور حضرت فاطمہ زھراء تھے۔ ان فرزندان میں حضرت فاطمہ زھراء(س) بعثت کے بعد پیدا ہوئی اور وحی کی فضا میں آنکھیں کھولی ہیں۔
حضرت خدیجہ کبری (س) کوحضور اکرم ﷺ سے خاص محبت تھی اور جب آنحضرت مبعوث بہ رسالت ہوئے تو اپنا سارا سرمایہ آنحضرت کے اختیار میں دیا تاکہ اسلام کے کام آجائے۔حضرت خدیجہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور اس راہ میں قریش کی طرف سے ڈھائے جانے والے مصائب تحمل اور بردباری کے ساتھ برداشت کئے۔جب تک زندہ تھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے دل کا سکون تھی اور شعب ا بی طالب میں جلاوطنی کے شدید ترین دورمیں آنحضرت کا ساتھ نہ چھوڑا اور تمام وجود کے ساتھ انکی حمایت کرتی رہیں۔
پیغبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت خدیجہ (س) کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم میرے پروردگار نے خدیجہ سے بہتر کسی کو نصیب نہ کیا کیونکہ جب لوگ کفرمیں تھے اس نے مجھ پر ایمان لایا، جب لوگ مجھے جٹھلاتے تھے،وہ میری تصدیق کررہی تھی؛ جب لوگوں نے مجھے محروم کیا اس نے اپناسارا سرمایہ میرے اختیار میں رکھا۔ خدا نے اسکے ذریعہ مجھے اولاد عطا کی جبکہ دوسری بیویوں سے یہ کچھ نصیب نہ ہوا۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت خدیجہ کو بہت یاد کرتے تھے۔ حافظ ابن کثیر نے مختلف لوگوں سے روایت لکھی ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سامنے حضرت خدیجہ کو یاد کر کے ان کی بہت زیادہ تعریف فرمائی تو حضرت عائشہ کے بیان کے مطابق ان پر وہی اثر ہوا جو کسی عورت پر اپنے شوہر کی زبانی اپنے علاوہ کسی دوسری عورت کی تعریف سن کر ہوتا ہے جس پر حضرت عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ قریش کی اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر فرما کر اس کی تعریف فرماتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔ اس کے بعد حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میری زبان سے یہ کلمات سن کر آپ کا رنگ اس طرح متغیر ہو گیا جیسے وحی کے ذریعے کسی غم انگیز خبر سے یا بندگانِ خدا پر اللہ کے عذاب کی خبر سے ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ
ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی، انہوں نے اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگوں نے مجھے اس سے محروم کر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے بطن سے مجھے اللہ تعالٰیٰ نے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا جب کہ میری کسی دوسری بیوی سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔(جو زندہ رہتی)
حضرت خدیجہ نے پینسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی اس وقت آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس کی تھیں۔جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات ہوئی تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پریشان تھیں اور اپنے پدر بزرگوار کے گردگریہ وزاری کے ساتھ چکر لگا کراپنے والد سے ماں کے بارے میں پوچھ رہی تھیں،حضرت فاطمہ اتنی زیادہ پریشان تھیں کہ جبرائیل پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئے اور فرمایا کہ اے رسول فاطمہ کو سلام پہنچادیجئیے اور کہہ دیجئیے کہ آپ کی والدہ بہشت میں ہیں۔
حضرت خدیجہ کی قبر مکہ میں قبرستان حضرت ابوطالب میں ہے جس میں حضرت عبدالمطلب حضرت ابوطالب اور حضرت عبد مناف بھی دفن ہیں۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کم مدت میں دو عظیم حامی ابوطالب (ع)اور خدیجہ کبری(س) کو کھو بیٹھے اور اس وجہ سے کافی غمگین تھے۔ اور اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) نام دیا گیا۔