آرٹیکل

شاہی خاندان کے شاہی غلام تحریر :شمائلہ راجہ

جو قومیں اپنے ماضی کو فراموش کر دیتی ہیں، حال کو سنوارنے کی سعی اور مستقبل کی بہتری کے لیے تدبیر نہیں کرتیں تو قصہ پا رینہ بن کر رہ جاتی ہیں ان پر اللّٰہ کی طرف سے عذاب یا امتحانات دونوں کا نزول فطری تقاضا ہے۔ دنیا کی مختلف ریاستوں کی تاریخ میں چند مشہور صدور گزرے ہیں جیسا کہ صدر جارج ڈبلیو بش، صدرعبدالکلام آزاد ، صدرنیلسن منڈیلا اور دیگر لیکن ہماری ریاست آزاد جموں وکشمیرجو کہ ستر سالوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اس کے صدر کے شاہی ٹھاٹھ شاید ہی کسی مشہور صدر کو نصیب میں ہوں جو کہ بنا کسی سیاسی محنت و مشقت اور سیاسی تپسیاکے بیالیس ووٹ لے کر آزاد ریاست جموں و کشمیر کی صدارت کی کرسی پر براجمان ہوگئے ہیں۔ بلاشبہ مسعود خان ایک اہل علم اور باوقار شخصیت ہیں۔ پوری دنیا انکی پاکستان کے لیے خدمات کی معترف ہے تو کیوں نہ انکو بدلے میں اس صدارت کے عہدے سے نوازا جاتا۔ رائیوینڈ کے صاحبزادگان اپنے دوستوں کو نوازنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔کیونکہ انکا تو نام ہی نواز اور شریف رکھا گیا ہے ۔ مسعود خان کی تمام تر دیگر خوبیوں سے ہٹ کرخفیہ طاقتوں کی تائید و حمایت بھی شامل ہے جو انکے اس عہدے کے لیے بنیادی شے ہے–اس بات سے خاطر خواہ اندازہ لگایا جا سکتا ھیکہ نا قدین کی یہ تنقید کہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر میں کسی بھی مداخلت کے بغیر آزادانہ حکومت سازی کی جاتی ہے کس حد تک درست ہے؟ سوچنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشا نیا ںموجود ہیں۔ دوسری طرف آزاد ریاست جموں وکشمیر کے بانی صدر جناب سردارابراہیم خان صاحب کے لخت جگر سردار خالد ابراہیم خان جو پاکستان اور آزادکشمیر میں رہتے ہو ئے بھی برطانیہ اور اس جیسی جمہو ری قدروں کے متقاضی ہیں آج غیر جمہوری رويّوں اورغیر جمہوری اقدارکا رونا رو رہے ہیں اور آئندہ ایک عوامی رابطہ مہم چلانے کی بات کر رہے ہیں۔ کیا ہی بہترہوتا جمہوریت کی پاسداری کا خیال کیا جاتا کہ ماضی میں جب جنرل حیات خان کو قوم پر مسلط کیا گیا، جب جنرل انور خان اور راجہ ذوالقرنین خان کو عوامی خواہشات کے برعکس کرسی صدارت پر بٹھایا گیا تو اس وقت یہ رابطہ مہم چلائی جاتی تو شاید آج کوئی بھی فرد چور دروازے سے صدارت کے منصب پر فائز نہ ہوتا۔اس شہنشاہی نظام میں اگرآزاد ریاست جموں و کشمیر کی آزار حکومت میں عورتوں کی شمولیت اور انکے سیاسی کردار پر روشنی ڈالی جائے تو سوائے صنفی تعصب اور مرد مغلوب معاشرے کے کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ ہماری خواتین کی سیاست میں شمولیت اور حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہے اور جن چند ایک خواتین کو سیاست کی آگاہی تھی انکی جگہ رائیوینڈ کے شاہی محل کے شاہی غلاموں کی دختران ذی وقا نے لے لی۔ کیونکہ وزارت و مشاورت کا اہل تو وہی فطری طور پر ہوتا ہے کہ جو سونے کا چمچ لیکر پیدا ہو تا ہے مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ھیکہ آزادکشمیر میں خواتین کا تعلیمی تناسب اس قدر زیادہ ہونے کے باوجود ان کی نمائندگی کے لیے ایسی خواتین کو منتخب کیا گیا جوخود اعلانیہ زرائع ابلا غ پر اس بات کو تسلیم کر چکیں ہیں کہ انہیں خود یقین نہیں کہ وہ ممبر اسمبلی بنا دی گئیں۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے پاس ایسی خواتین موجود تھیں جن کا باقاعدہ ایک سیاسی کیریئر رہا ہے۔ جو آذاکشمیر کی خواتین کی بہتر طریقے سے نہ صرف نمائندگی کرتیں بلکہ خواتین کے مسائل کوحل کرنے میں حکو مت کے لیے معاون ثابت ہو سکتی تھیں۔آزاد ریاست جموں و کشمیر کے آزاد باشندے شاید کسی مسیحا کے منتظر ہیں لیکن شا ید اقبال کشمیری ہونے کہ ناطے اپنی کشمیری قوم کو حبردار کرتے ہوئے کیا خوب کہہ گئےکہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker