آرٹیکل
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ایک طائرانہ نظرڈالیں تو دنیا کےتقریباً ہرمذہب اور معاشرے میں مرد غالب اورعورت مغلوب دکھائی دیتی ہے ۔ اگر دین اسلام کی بات کی جائے تو اس میں بھی مرد کوکچھ معاملات میں فوقیت حاصل ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کیا گیاہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مرد اپنے حقوق کا تو خوب راگ آلاپتے ہیں لیکن اکثر اپنے فرائض کی ادائیگیوں سے کتراتے ہیں ۔ راقم کا تعلق وادی کشمیر جنت نطیر سے ہے جہاں آج بھی لوگ نہ صرف قبائلی طرز زندگی بسر کررہے ہیںبلکہ ہرکام قبائیلی سوچ کے تابع ہی کرتے ہیں – ووٹ کا استعمال، لڑکی کی شادی، اس کی تعلیم یا ملازمت کے پیشے کا اختیار بھی قبائیلی رسم و رواج کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی معاشرے سے بغاوت کرلے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھا بھی لے تو نہ صرف اس کے خاندان کو شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ نوبت معاشرتی لاتعلقی تک آجاتی ہے۔ اس طرح کے حالات میں ظلم کا نشانہ صرف عورت ہی ہوتی ہے جس سے آزادی اظہار رائے سے لے کر پیشہ وارانہ آزادی بھی سلب کرلی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا دوہرا معیار تو دیکھیں کہ ایک طرف جب یہ عورت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حق کے لیے افواج سے مار کھا رہی ہوتی ہے توہمارا معاشرہ اسے عورت پر ظلم اور حقوق نسواں کی پامالی بنا کے پیش کرتا ہے یا پھر کچھ لوگ اسے بڑے فخر سے بيان کرتے ہيں لیکن جب یہی عورت اپنے ہی معاشرے کے مردوں سے اپنا جائز حق مانگتی ہے تونہ صرف اسکی آواز دبا دی جاتی ہے بلکہ اسے طرح طرح کے طعنے معنے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ترقی کی وہ منازل طے نہیں کرسکا جو باقی دنیا نے طے کی اور ہماری عورت پڑھی لکھی ہونے کے باوجود جائز حق سے محروم ہے- عورتوں سے متعلق چند مسائل کا ادراک تو مجھے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں رہتے ہوا ہی تھا جہاں صحت کی ناقص سہولیات کا مسئلہ سہرفرست ہے- بچوں کی پیدائش کے دوران ان میں سے بہت سی خواتین طویل مسافت کے باعث بروقت ہسپتال نہیں پہنچ سکتیں اور نتیجتاً يا تو ان کی موت واقع ہو جاتی ہے یا پھر بچہ اثرانداز ہو تا ہے۔ یہاں تک کہ ایک عام آدمی کوبھی میڈیکل سہولت کی کمی کے باعث راولپنڈی یا اسلام آباد بھیج دیا جاتا ہے۔ ليکن جب میں نے مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے عورتوں کے حقوق کا بغور مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ ہم باقی دنیا سے کتنی صدیاں پیچھے ہیں ۔ یہاں عورت اور مرد برابر ہیں ۔ نہ ہی یہاں کوئی قبائیلی رسم و رواج ہیں اور نہ ہی اس عورت کو تعلیم کے حصول سے لے کر روزگار کے انتخاب تک معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کی خواتین کی صلاحتیں کھل کر سامنے آتی ہیں اور وہ ملک اور معاشرے کی باگ دوڑ میں بامقصد اور اہم کردار نبھاتی ہیں-مغربی معاشرے نے عورت کو ہمت کا پیکر بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے انہیں زندگی کے ہرشعبے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے وسائل مہیا کیے جاتے ہیں ۔ وہ اپنے ہر فیصلے میں آزاد ہیں۔ حتی کہ اس وقت جرمنی اور برطانیہ جیسے اہم ممالک کی انتظامی سربراہان بھی دوخواتین ٹریسا مئے اور انجیلا مرکیل ہیں۔ یہ دونوں خواتین انتہائی خوش اسلوبی سے اپنے ملک کا نظام بھی چلا رہی ہیں اور اپنے گھر کی بھی دیکھ بھال کررہی ہیں۔ لیکن دوسری جانب ہمارے معاشرے میں عورت کو بے جان تصویر بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کے لیے نہ حصول تعلیم کوئی معنی رکھتا ہے اور نہ ہی روزگار کا حصول۔ اس کا کام صرف اور صرف بچوں کی دیکھ بھال تک محدود کر دیا جاتا ہے ۔ اور جب یہی عورت بیوہ ہو جاتی ہے تو اولاد کی پرورش کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتی ہے تو معاشرہ کسی قسم کی مدد نہیں کرتا اور نہ ہی وہ لوگ دکھائی ديتے ہيں جو اسکو ساری زندگی معاشرتی رسم و رواج سے باندھے رکھتے ہیں-ہمارے سیاستدان جب جلسوں میں یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہمارے ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تو بلاشبہ اس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہوتے ہیں لیکن کیا فائدہ ہے لڑکیوں کو ملکی ترقی میں اپنا کردار نبھانے کے مواقع ہی نہ مل سکیں ۔ ایک پڑھا لکھا مرد ایک اچھا روزگار حاصل کرسکتا ہے لیکن ایک پڑھی لکھی عورت ایک پڑھے لکھے خاندان کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ اگر ہمیں اپنی آنيوالی نسلوں کو اعلی تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور مہذب بنانا ہے تو ہمیں اپنے معاشرے میں عورت کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ، ہمارے بزرگوں کو اپنے ذہنوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرکے عورت کو رسم و رواج سے آزاد کرنا ہوگا اور اسے بھی مردوں کی طرح اپنا آپ ثابت کرنے کا موقع دينا ہوگا- ہماری خواتین انتہائی باہمت اور بلند حوصلے کی مالک ہیں اگر وہ بارش میں سر پر پانی کے مٹکے اٹھا کر لا سکتی ہیں ، کھیتوں میں کام کرسکتی ہیں ، سخت سرد موسم میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں اکھٹی کرسکتی ہیں اور گرمی کے موسم میں گھاس کاٹ سکتی ہیں تو پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنا آپ کیوں نہیں منوا سکتیں؟ ہمارے مردوں کو عورت کے لیے استانی کے پیشے سے بڑھ کر سوچنا ہوگا۔میں اس بات سےبھی بخوبی واقف ہوں کہ آزادکشمیر میں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع میسر نہیں لیکن اگر حکومت وقت اس پر نظر ثانی کرے تو شاید ہمارے معاشرے کی عورتیں بھی اپنے ہنر کو بروئے کار لا سکیں۔ مثال کے طور پر اگرآزادکشمیر میں ہیلتھ سینٹرز قائم کيے جائیں تو اس سے ہمیں دوہرا فائدہ ہو سکتا ہے اول یہ کہ علاقے میں رہنے والے ہر فرد کو صحت کی سہولیات میسر ہو سکیں گی او ر دوسرا اس سینٹر میں مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں روزگار کے مواقع بھی میسر ہو سکیں گے ۔اسی طرح اگر غريب اور بے سہارا خواتین کے لیے ڈسلپے سینٹرزقائم کیے جائیں یعنی ایسی جگہ بنا دی جائیں جہاں وہ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی اشیاء اورکڑاھی والے کپڑے وغیرہ بیچ سکیں۔ اس سےنہ صرف بہت سی عورتیں جن کے پاس یہ ہنر ہے وہ آپس میں جڑیں گی بلکہ اس سے اچھی آمدن کا ذریعہ بھی پیدا ہو گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے کلچر کو فروغ دینے کے لیے یہ اقدام بہترین ہے۔ ہندوستان اور پاکستان تو کشمیر کی غلامی کے براہ راست ذمہ دار ہیں لیکن میرے نزدیک ہم کشمیر کے اندر معاشرتی تقسیم کے غلام زیادہ ہیں اور کچھ حد تک اسکا ذمہ دار ہمارا مرد مغلوب معاشرہ بھی ہے جہاں آج بھی عورت کو برابر کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آزادی کی لڑائی بندوق سے نہیں جیتی جائے گی بلکہ کشمیریوں کو اپنے حقوق کا دفاع کرنا ہوگا اور یہ کام مرد اکیلے نہیں کرسکتے بلکہ عورتوں کو بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اسلام کی تاریخ میں بھی بہت سے ایسی جنگوئوں کا ذکرہے جب عو رتوں نے مردوں کا ساتھ دیا ۔ کشمیر کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنے معاشرے کو آزاد کرتے ہوئے خواتین کو بااختیار کریں