آرٹیکل
پاکستان ایک عشق ایک جنون
چودہ اگست کے دن کو پاکستان کی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے۔یہ وہ دن ہے جب دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک چاند کی مانند روشن ہوکرابھرا۔ قائد اعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں انگلستان کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والایہ ملک پاکستان ہی تھا جس کی بدولت ہندوستان کو آزادی ملی۔اگر مسلمان قائداعظم کی قیادت میں متحد ہوکر آزادی کی جنگ نہ لڑتے تھے ہندو بنیے ساری زندگی انگریزوں کی غلامی میں رہتے۔ اگر ہم آزادی پاکستان کی تاریخ اٹھا کر پڑھیں تو ہماری آج کی نسل کی روح تک کانپ کر رہ جائے گی۔ انگریزوں سے نجات بظاہر پاکستان نے حاصل کرلی مگر ظلم وستم کے جو پہاڑ ہندؤں نے ڈھائے اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی۔ہندوؤں نے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں پر وہ ظلم ڈھائے کہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ایک دن ہم سب گھروالے اپنی والدہ کے پاس بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے ۔والدہ نے جب پاکستان کی بنیاد کی داستان سنائی تو ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جب گھر سے نکلے تو ہندوؤں نے ہمارے بے پناہ تشدد کیا۔ ہماری گاڑیوں پر تلواروں سے وار کیے۔ ہمارے اپنے ہماری آنکھوں کے سامنے شہید کردیے اور ہمیں ہمارے بڑے گودوں میں بھر کر گاڑی میں بیٹھاتے رہے۔ ہر کوئی اپنا مال و زر چھوڑ کر صرف پاکستان کی محبت میں ہندوستان سے نکل رہا تھا۔ آج ہم جس ملک میں بیٹھے ہیں ہم اس کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر بیٹھے ہیں مگر اس کی بنیاد میں کتنا لہو ہے یہ ان کو پتا ہے جن کے عزیزو اقارب ان کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوئے۔آج جمو ں وکشمیر کو دیکھ لیں اس کی کیا حالت ہے ۔ اس پر کتنا ظلم وستم ڈھایا جارہا ہے مگر افسوس ہے کہ ہم مسلمان کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔پاکستان کی بنیا د کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی شائد یہی جذبہ تھا کہ ہر مسلمان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ میدان عمل میں نکلا۔ہندوستان سے آنے والوں نے اللہ کے نام پر اپنے گھر بار، جائیدادیں، چھوڑیں۔لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں شہید ہوئے، ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں لٹیں، صرف اس لئے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جہاں اپنے دین کے مطاق زندگی گزاری جائے اور جب یہ مہاجرین پاکستان آئے تو یہاں موجود ان کے سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان و دیگر بھائیوں نے ان کو گلے سے لگایا۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھا، ان کی دل جوئی کی ، صرف اور صرف اسلام کے نام پر۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلا م کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔مگر آج ہم اپنے اللہ ، رسول ، کتاب کے ساتھ ساتھ اپنے قائد کے فرمان کو فراموش کرچکے ہیں۔ آج ہم اسلامی اصولوں کی بجائے یہودی کے بنائے ہوئے اصولوں کے تابع ہیں۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے صرف اللہ کے نام کی خاطر اپناگھر بار، جائیدادیں چھوڑیں، ہزاروں لوگ شہید ہوئے، ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں لٹیںصرف اس لئے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جہاں اپنے دین اسلام کے مطابق زندگی گزارسکیں ۔جب لوگ ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تو یہاں پر موجودمسلمان بھائیوں نے ان کوآگے بڑھ کرنہ صرف گلے لگایابلکہ ان کے زخموں پر مرہم بھی رکھا۔14اگست کے دن پاکستان بھر میں مختلف مقامات پر تقریبات ہوتی ہیں۔اس دن کا آغاز توپوں کی سلامی سے کیا جاتا ہے ۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔مگر یہ عہد صرف زبانی کلامی ہوتا ہے اس عہد پر عمل نہیں ہوتا ۔آج پاکستان کوقائم ہوئے 69برس ہوگئے ہیںمگر آج کادور ہرگزرنے والے دور سے بدتر ہورہا ہے ۔ بد قسمتی سے اپنوں کی مہربانیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے ہر آنے والا دن نئی آفات اور پریشانیاں لے کر داخل ہوتا ہے ۔ ہر طرف قتل وغارت ہورہی ہے۔ یہ اسی وجہ سے ہے کہ ہم نے یہ ملک لاالہ الاللہ پر بنایا تھا لیکن ہم محمد رسول اللہ پر اس کی تکمیل کرنا بھول گئے۔14 اگست کو پاکستان میں سرکاری طور پر تعطیل ہوتی ہے، جبکہ سرکاری ونیم سرکاری عمارات میں چراغاں ہوتا ہے اور سبز ہلالی پرچم لہرایاجاتا ہے۔ اسی طرح تمام صوبوں میں مرکزی مقامات پر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے او ر ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ پاکستان کی تمام شہروں میں ناظم قومی پرچم بلند کرتے ہیں جبکہ کثیر تعداد میں نجی اداروں کے سربراہان پرچم کشائی کی تقاریب میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگارنگ تقاریب، تقاریر اور مذاکروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا 14اگست پر سبزہلالی پرچم لہرانے سے ہماری آزادی مکمل ہوتی ہے ؟ کیا رنگا رنگ تقریب اور کیک کاٹنے سے پاکستان کی آزادی کا پتہ چلتا ہے؟ غلام ہم آج بھی ہیں کیونکہ غلامی ہم بے شک نہیں کررہے مگر ہمارے حکمران کفار سے قرضے لیکر ہمیں گروی رکھ رہے ہیں۔ ہماری آنے والی نسلوںکو غلامی کی زنجیروں میں جکڑرہے ہیں۔ خدارا اب بھی وقت ہے اس ملک کی طرف دیکھو جو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اے مسلمانوں اسلام کا دامن پکڑ لو جس کی بنیاد پر میں معرض وجود میں آیا ہوں۔ چھوڑ دو فرقہ واریت کو، رشوت خوری کو، ظلم و ستم کو اور اپنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی عزت و نفس کے لیے نکلو، کشمیر اور فلسطین کو کفار کے چُنگل سے آزادی دلاؤ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کو یکجا کرکے ایک پلیٹ فارم (اللہ اور اس کے رسولؐ)پر اکٹھے ہوجائیں تاکہ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہماری طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔آمین