آرٹیکل

امام حسن مجتبی سے رسول اللہ کی محبت

d ashraf jlale

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے اور حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن مبارک سے تھے۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت 15رمضان المبارک 3ھ کو مدینہ میں ہوئی ،آپ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت میں رہ کے فیوض وبرکات حاصل کرتے رہے اور رسول اکرمﷺصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔رسول اکرمﷺاپنے اس شہزادے سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ امام ذھبی نے سیر اعلام النبلاء میں اس کو روایت کیا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اکرمﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوا ا تودیکھاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے تھے اور آپ کے سینے پر دونوں شہزادے کھیل رہے تھے۔الم نشرح کے سینے پر حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نہایت چھوٹی عمر میں کھیل رہے تھے۔حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے پوچھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھاکہ آپکے سینے پر یہ دونوں شہزادے کھیل رہے ہیں تو کیا آپ ﷺان سے پیار کرتے ہیں؟ ان کو محبوب سمجھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںمیں کیسے ان سے پیار نہیں کروں گا؟ یہ کس طرح میرے محبوب نہیں ہو سکتے ؟یہ میرے محبوب نہیں ہوں گے تو کون میرا محبوب ہو گا۔ میں کیسے ان سے پیار نہ کروں۔میں اس لئے پیار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں دنیا کے اندر میری خوشبو رکھی ہے۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی …سیر اعلام النبلاء)اور رسول اکرمﷺنے اپنی امت سے تقاضا کیا کہ میری وجہ سے میری اہل بیت سے پیار کرتے رہیں ۔اسی واسطے آپ فرماتے تھے کہ’’ احبوا اہل بیتی لحبی ‘‘میری وجہ سے میری اہل بیت سے پیار کرو ۔اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم سے پیار ان کی اپنی ذات کی وجہ سے نہیں مانگا گیا ۔ اہل بیت کا پیا رنبی علیہ السلام کی وجہ سے مانگا گیا ۔ تم نے میرے اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت کرنی ہے تو میری وجہ سے تم نے ان سے محبت کرنی ہے اس لئے کہ وہ میرے اہل بیت ہیں۔ شریعت میں اس پیار کا تقاضا ہے اور اس محبت کو اللہ تعالی نے امان قرار دیا ہے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی چونکہ اہلبیت میں سے تھے اس وجہ سے آپ کی محبت بھی ہر امتی پہ لازم ہے ۔آپﷺفرماتے تھے کہ ان سے میری خوشبو آتی ہے اس لئے میں ان سے پیار کرتا ہوںیہ میرے سینے پر کھیل رہے ہیں محض اس لئے نہیں کہ یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں۔میرے جگر کے ٹکڑے کی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو میری صورت کا پیکر بھی بنایا اور میری سیرت کا پیکر بھی بنایا ہے۔’’یہ دونوں دنیا میںمیرے پھول ہیںان سے میری خوشبو آتی ہے‘‘حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺنے امام حسن کو اپنے کندھوں پہ اٹھایا ہوا تھا کہ ایک شخص نے دیکھا اور کہااے بچے تیری کتنی اچھی سواری ہے تو رسول اکرم ﷺنے فرمایا کہ دیکھو سوار کتنا اچھا ہے ۔(مستدرک للحاکم ) حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کربلا کے میدان میں یہ حدیث بیان کی تھی کہ میں اور میرے بھائی حسن ہم وہ ہیں کہ رسول اکر م ﷺ نے مجھے اور میرے بھائی حسن کو لوگوں کے سامنے بٹھا کر ارشاد فرمایا تھا ۔ تم دونوں حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہو اور سنیوں کی آنکھ کی ٹھنڈک ہو ۔(الکامل فی التاریخ باب ذکر مقتل الحسین رضی اللہ تعالی عنہ ) تویہ انداز رسول اللہ ﷺ نے ان مقدس نفوس کو شروع سے عطا فرمایا ہے ۔سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرماتھیں، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کشتی لڑ رہے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لمحے لمحے کے بعد فرما رہے تھے۔اس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ بھلے حسن …شا باش حسن جب آپ نے کئی بار یہ ارشاد فرمایا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس پر صبر نہ کر سکیں کہنے لگیں ابا جی ! اگر اس سے مقصدد اد دینا ہے تو جب ’’ھَیَّ حَسَنٌ‘‘کہتے ہو تو پھر’ھَیَّ حُسَیْنٌ ‘‘بھی فرمائو اور اگر ’’ھَیَّ حُسَیْنٌ ‘‘نہیں فرماتے تو پھر’’ھَیَّ حَسَنٌ‘‘ بھی نہ فرمائو ۔تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیااے فاطمہ! عرش سے جبریل علیہ السلام آئے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔’’بھلے حسین ‘‘تو میں کہتا ہوں ’’بھلے حسن‘(فضائل الخلفاء الراشدین لابی نعیم الاصبھانی ،الکامل لابن عدی، اسد الغابۃ ، تاریخ مدینۃ دمشق ) اب جن کی پریکٹس کے وقت اور بدنی تفریح کے وقت اس قدر روحانیت کا اہتمام کیا گیا ہو کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم صدارت فرما رہے ہوںاور جبریل علیہ السلام داددینے کو آئے ہوئے ہوں تو ان کی روحانی تیاری اور باطنی صفائی کے جو انداز تھے ان کو اپنے لفظوں میں کون بیان کر سکتا ہے۔پھر نسب کے ساتھ ساتھ جو عطائیںتھیں اس کا ایک مستقل انداز ہے۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دن حاضر خدمت ہوئی تو کہنے لگیں۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے شہزادے ہیں ان دونوں کو کچھ نہ کچھ ورثہ عطا کرو۔رسول اکرم ﷺ کا دربار ہو اور مانگنے وہ آئیں جن کوخود ہی جگر کا ٹکڑا قرار دیا ہے۔تو وہ انداز کیسا ہو گا اور آپ ﷺکی عطا کیا ہو گی یہ تو وہ کریم ہیں۔اگر کوئی اجنبی آ جائے اس کیلئے بھی بحر حکمت، بحر عطا میں مدوجز ہوتا ہے۔کنارے موجوں سے بھر جاتے ہیں جب خود شہزادی مانگنے آئی ہیں تو کیا کچھ عطا فرمائیں گے اور پھر اسکا جو سوال تھا کہ ان کوورثہ دے دو۔سونا چاندی یا اس قسم کی کوئی چیزیں وہ مانگنے نہیں آئی تھیں۔ جتنی اعلیٰ حیثیت نبوت کی ہے اتنا ہی بڑا اس کاورثہ ہوتا ہے۔ یہاں سونے چاندی کی کیا مجال کہ یہ نبوت کا ورثہ بن سکیں۔ جس وقت انہوں نے مانگا تو میرے آقا علیہ السلام نے فرمایامیری بیٹی میں نے دونوں شہزادوں کودو دوورثے عطا کر دئیے ہیں۔میں نے حسن کو دو چیزیں دے دیںاس کے لئے میری ہیبت اور میری سرداری ہے اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی دو چیزیں عطا کی ہیں ان کے لئے میری شجاعت اور میری سخاوت ہے ۔(المعجم الکبیر للطبرانی :رقم الحدیث :18474 میں نے حسن کو اپنی ہیبت کا ورثہ دیا اپنے رعب کا ورثہ دیا۔سرکار علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں اس رعب میں سے حصہ میں نے اپنے حسن کو عطا کر دیااور میں نے ان کو سیادت کا ورثہ بھی دیدیا۔تمام اہلبیت اطہار میں سے امام حسن رضی اللہ عنہ کی منفرد قسم کی حیثیت ہے۔ انہیں آپ ﷺنے فرمایا کہ میں نے ان کو اپنی سیادت دی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماتھے ،امام حسن رضی اللہ عنہ کو ساتھ بٹھایا ہوا تھا۔ ایک نگاہ مجمع پر تھی اور ایک نگاہ ان کے چہرے پر تھی۔ لوگوں کو ان کے چہرے کی طرف متوجہ کر کے فرمایا۔ میرا یہ بیٹا سید اور سردار ہے۔اور یقینا اللہ تعالی ان کی وجہ سے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا ۔(صحیح بخاری)یعنی ایک وقت آئے گا میرا یہ بیٹا سرداروں والے کام کرتا ہوا امت کے دو طبقوں کے درمیان پھر صلح پیدا فرما دے گا۔یہ اس کا ایک قائدانہ کردار ہو گا۔ دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔ دونوں مسلمان بھی ہونگے اور دونوں عظیم بھی ہونگے۔ ان میں سے کوئی حقیر نہیں ہو گا۔ یہ میرا سردار بیٹا اتنے حوصلے کا مالک ہو گا۔ آج چھوٹی سی اپنی ناظم کی سیٹ بھی مفت میں کسی کو دینے پہ تیار نہیں ہیں۔ مشرق و مغرب شمال و جنوب تک ساری سلطنت بڑے حوصلے سے پلیٹ میں رکھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے کر مسکراتے ہوئے کانفرنس میں یہ کہا تھا۔ لوگو!عرب کی کھوپڑیاں میرے ہاتھ میں تھیں، چاہتا تو ٹکرا دیتا لیکن میں نے اپنے نانا جی کی وراثت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی سیٹ دی کر امت کو متحد کر دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Close
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker