مخدومِ اُمم سیدِہجویر حضرت داتاگنج بخش رَحِمَہٗ اﷲ تعالیٰ کا شمار ان نابغۂ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے معاشرے پر اپنی تبلیغ کے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اورکئی صدیوں کی تاریخ کواپنے افکار سے اجالے بانٹے ہیں۔ آپ یقینا ان چند اہم مصلحین میں سے ہیں جنہوں نے برصغیر سے کفر وشرک کے اندھیروں کو کافور کرنے میں کلیدی اور نہایت اہم کردار اداکیا۔آپ نے علم وحکمت اور کشف وکرامت کے ذریعے برصغیر کے غیر مسلم طبقے کو دعوتِ حق دیکر اسلام کے جھنڈے کے نیچے لاکھڑا کیا۔ آپ کے اوصاف و کمالات آپ کے اخلاقِ عالیہ اور آپ کے جامع اور مؤثراندازِتبلیغ نے بہت جلد بگڑے ہوئے معاشرے کو اصلاح سے یوں ہمکنار کیا کہ اقبال کہتے ہیں:
خاکِ پنجاب ازدمِ او زندہ گشت
7صبحِ ما از مہرِاوتابندہ گشت
(ان کے دم قدم سے پنجاب کی مٹی زندہ ہوگئی ، ہماری صبح ان کے سورج سے روشن ہوگئی)آپ چونکہ خود قرآن و سنت کے متبحّر عالمِ دین تھے آپ نے ماحول سے بدعقیدگی اور بدعملی دور کرنے کیلئے اسی نسخہ کیمیا کو عام کیا اور لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف متوجہ کیا آپ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’کشف المحجوب شریف‘‘ میں سب سے پہلا باب ہے ہی علم کے بارے میں۔آپ نے اس باب کا نام تجویز کیا ہے ’’باب اثبات العلم‘‘۔آپ نے اس مقام پر لوگوں کو محض علم کی طرف دعوت ہی نہیں دی بلکہ مفید اور نقصان دہ علم کا امتیاز بھی کیا ہے۔اور ضروری و غیرضروری علم کے لحاظ سے مومن کی پالیسی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔نیز تحصیلِ علوم میں مومن کی ترجیحات کو بھی ذکر کیاہے۔
آپ فرماتے ہیں:بدانکہ علم بسیاراست وعمرکوتاہ۔
(جان تو کہ علم بہت زیادہ ہے مگر انسانی عمر بہت تھوڑی ہے)اس کے بعد احساس کو مزید بیدار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:تمام علوم کا سیکھنا انسان کے لئے فرض نہیں۔مثال کے طور پرعلمِ نجوم، علمِ حساب اور صنائع بدائع ان علوم سے اتنا حاصل کرنا ضروری ہے جتنا کہ شریعت حقہ نے مقرر کیا ہے۔ جیسے ستارہ شناسی کی اس حد تک اجازت ہے کہ رات کے اوقات کی شناخت ہوسکے، علمِ طب اس حد تک ضروری ہے کہ بیمار کو بیماری میں لازمی پرہیز کا پتہ چل سکے۔اسی طرح علمِ ریاضی اتنا سیکھنا ضروری ہے جس سے انسان علمِ فرائض (علمِ وراثت)سے آگاہ ہو سکے اور مختلف شرعی معاملات میں عدت کے ایام گن سکے۔بس علم اتنا ہونا چاہیے جس سے عمل درست ہوسکے کیونکہ حق تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے جو غیر نافع علم حاصل کرتے ہیں۔
رب العزت نے فرمایا:
وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ ۔(سورۃالبقرۃآیت۱۰۲)
’’اوروہ ایسا علم سیکھتے ہیں جو انہیں ضرر پہنچاتا ہے اور نفع نہیں دیتا۔‘‘
نیز جنابِ سید المرسلین ﷺ نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَایَنْفَعُ۔
اے اﷲ! میں اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع بخش نہیں۔آپ کے تعلیمی نظریات بڑے انقلابی ہیں۔ آپ نے جس طرح تحصیلِ علوم میں ملت کی رہنمائی فرمائی ایسے ہی بعد ازتحصیل ذمہ داری پر کمال حکمت سے مطلع فرمایا۔اور بعض لوگ جو تصوف کے لئے علم کو ضروری نہیں سمجھتے ان کی بھی خبر لی ہے۔
آپ فرماتے ہیں:پس باندکی از علم عمل بسیار بتواں کرد وباید کہ علم مقرونِ عمل باشد کہ رسول اﷲ ﷺ گفت:اَلْمُعْتَبِّدُ بِلَافِقْہِِ کَالْحِمَارِفِیْ الطَّاحُونَۃ۔پس تھوڑے علم سے بہت سا عمل کیا جاسکتا ہے۔ اورعلم عمل سے ملا ہواہوناچاہیے،کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
’’علمِ فقہ جانے بغیر عبادت کرنے والا اس گدھے کی طرح ہے جو چکّی میں جُتا رہے۔‘‘یعنی ہزارہاچکر کاٹنے کے باوجود پہلے قدم پر ہی رہتاہے۔اور آگے نہیں بڑھ سکتا۔علم اور عمل میں سے افضلیت کس کی ہے؟ آپ نے اس موضوع پر نہایت شاندار بحث کرتے ہوئے فرمایاہے:’’میں نے عوام میں ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو علم کو عمل پر فضیلت دیتی ہے اور ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو عمل کو علم سے افضل سمجھتی ہے۔یہ دونوں جماعتیں باطل رستے پر ہیں۔کیونکہ علم کے بغیر عمل ، عمل نہیں ہوتا،عمل اس وقت عمل ہوتا ہے جب وہ علم سے ملا ہوا ہوتا ہے تاکہ بندہ ثواب پانے کیلئے حق کی طرف پوری طرح متوجہ ہو۔ جب تک نماز کے لئے ارکانِ طہارت کا علم نہ ہو،پانی کی شناخت نہ ہو، قبلہ کی سمت کا علم نہ ہو، نیت کی کیفیت کاعلم نہ ہوتو نماز نہیں ہوتی۔ اسی طرح ارکانِ نماز کا علم نہ ہو تو نماز کیسے اداہوگی؟ لہٰذاجب عمل بعینہٖ علم ہوجاتاہے تو جاہل اسے ایک دوسرے سے جدا کیسے کرسکتا ہے؟ اور وہ لوگ جو علم کو عمل پر فضیلت دیتے ہیں، یہ بھی محال ہے کیونکہ علم کی عمل کے بغیر کوئی حیثیت نہیں۔چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْکِتَابَ،کِتَابَ اللّٰہِ وَرَاءَ ظُہُورِہِمْ کَاَنَّہُمْ لَایَعْلَمُوْنَ۔(سورۂ بقرہ آیت نمبر۱۰۱)
’’تو کتاب والوں سے ایک گروہ نے اﷲ کی کتاب اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دی،گویا وہ علم ہی نہیں رکھتے۔‘‘داتا صاحب فرماتے ہیں کہ بے علم عالم کانام اﷲ تعالیٰ نے علماء کی فہرست سے خارج کر دیاہے۔ نیز آپ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں :
’’جوعلماء ہوتے ہیں وہ جہالت کے لوازمات سے بچ کے رہتے ہیں ، چنانچہ وہ علم کو دنیاوی جاہ و عظمت کا ذریعہ نہیں بناتے۔ اور جو لوگ علم کو دنیاوی جاہ وجلال کا سبب بنائیں وہ عالم نہیں ہوتے۔‘‘آپ نفع بخش علوم کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بندے کاعلم حُکمِ خدا کی بجاآوری اور اسکی ذات کی معرفت کے لئے ہوناچاہیے۔بندے پر یہ بھی فرض ہے کہ اپنے زمانے کے علم کو جانے اور ایسے علم کے ظاہر وباطن کو بھی جانے جو وقت پر کام آئے۔
اس علم کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم اصول ہے اور دوسری فروع۔ اصول کا ظاہر، قولِ شہادت یعنی اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور رسالت کی تصدیق اوراصول کا باطن، تحقیقِ معرفت ہے۔اور فروع کا ظاہر، معاملات کی درستی اور باطن کی تصحیح ،نیّت ہے،اور ان میں سے ہر ایک کاقیام ایک دوسرے کے بغیر محال ہے۔ چنانچہ ظاہر کودرست رکھنااور دل میں اس کے خلاف ہونانفاق ہے۔اور باطن کی اصلاح ظاہر کے بغیر زندقہ وا لحاد ہے۔ اور شریعت کا ظاہر، باطن کی درستگی کے بغیر ناقص ہے اور جوچیزباطن میں نہ ہو اسے ظاہر داری میں دکھانامحض ہوس ہے، لہٰذاعلمِ حقیقت کے تین ارکان ہیں۔
رکنِ اول علمِ ذاتِ خداوندی اور اس کی وحدانیت پر اعتقاد اور ذات پاک کی تشبیہ سے نفی۔
دوسرا رکن علمِ صفاتِ باری تعالیٰ اور اس کے احکام کی پابندی۔
تیسرارکن رب العزت کے افعال و حکمت کاعلم۔
اور علمِ شریعت کے بھی تین ارکان ہیں:
(۱) کتاب۔(۲) سنت۔(۳)اجماع۔
حضرت فضل بلخی کے حوالے سے آپ نے لکھاہے علم کی تین قسمیں ہیں:(۱)علم من اﷲ۔ (۲)علم مع اﷲ۔ (۳)علم باﷲ۔
علم باﷲ :وہ عرفان ہے جو تمام انبیاء اور اولیاء کو ہوتاہے اس کے جاننے سے وہ عارفِ الٰہی بنتے ہیں۔
علم من اﷲ:علمِ شریعت ہے اس کے ذریعے مکَلّفِ احکام ہوتے ہیں
علم مع اﷲ: مقامات اور طریقِ حق کا علم اور درجاتِ اولیاء کا بیان ہے
آپ کی تعلیمات میں محبتِ الٰہی، عشقِ رسول ﷺ، عقیدتِ اہلِ بیت رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اور احترامِ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے مناظر موجود ہیں۔
آپ کے علمی نظریات میں اصلاحِ نفس، خشیتِ ایزدی اور فکرِ آخرت کا پیغام جلوہ گر ہے۔
آپ نے حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحِمَہٗ اللّٰہُ تَعَالیٰ کے حوالہ سے لکھاہے:تین قسم کے لوگوں سے اجتناب کرو ۔
(۱)غافل علماء سے،(۲)دینی اصولوں پر پابندی نہ کرنے والے قرّاء سے ، (۳)اور خود ساختہ جاہل صوفیوں سے۔
آپ کے نزدیک باخبر انسان وہی ہے جو ہر وقت اپنے آپ کو عملاً اﷲ تعالیٰ کے سامنے سمجھے۔ آپ نے اس سلسلہ میں ایک حکایت ذکر کی۔کہتے ہیں:’’بصرہ کا ایک رئیس اپنے باغ میں گیا۔ اچانک اس کی نظر اپنے مالی کی حسینہ و جمیلہ بیوی پر پڑی، اس نے مالی کو کسی کام کے لئے بھیجا اور عورت سے کہادروازہ بند کردو۔ اس عورت نے کہامیں نے سب دروازے بند کردئیے ہیں لیکن ایک دروازہ بند نہیں ہوسکتا۔اس نے پوچھا وہ کون سا ہے؟ خاتون نے جواب دیا یہ وہ دروازہ ہے جو اﷲ تعالیٰ اور ہمارے درمیان ہے۔اس پر وہ پشیمان ہوااور مغفرت طلب کی۔
اﷲ اﷲ کیا عُلُوِّ شان، گنج بخش کا
آج بھی ہے محترم فرمان، گنج بخش کا
آج بھی جوبَن پہ ہے فیضان، گنج بخش کا
آج بھی بھوکا نہیں مہمان، گنج بخش کا
Iجس نے بویاتھا زمینِ ہندمیں تخمِ یقیں
بھول نہ جاناکبھی احسان، گنج بخش کا
کرگسوں کو کیا پتہ ہو گلشنوں کی شان کا
مرتبہ جانے جو ہو انسان، گنج بخش کا
کررہے ہیں عاقبت کو خراب بول کے ان کے خلاف
کیا بگاڑیں گے سبھی شیطان، گنج بخش کا
کتنے داراء وسکندر مرگئے ہیں موت سے
پھر بھی ہے معمول پہ ایوان، گنج بخش کا
ایک آصفؔ ہی نہیں فیضانِ داتا کاغلام
بستی بستی پہنچاہے فیضان، گنج بخش کا |