آرٹیکل
عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں
عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں
تحریر:راجہ ظہیراحمد کیانی ایڈووکیٹ
افتخار ایوب سیاسی چمگادڑ اور شاہ دولہ ہے جو مُنہ پر راجہ لیگ کے بغض و حسد کی عینک لگا کر ہر چیز دیکھتا ہے راجہ لیگ کے نام نہاد لیڈروں نے محسن کُشی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے یہ سیاسی جماعت نہیں بلکہ سیاسی مسخرے ذاتی مفادات کے لیے دو انتہا پسند راجپوت راجہ ظفر الحق اورراجہ افضل کی سیاسی ناجائز اولاد کا درجہ رکھتے ہیں مجاہد اوّل کے گھر کو آزاد کشمیر کی سیاست میں مزار قاہد کی حیثیت حاصل ہے افتخار ایوب کو مُنہ کی بواسیر ہو چکی ہے جس کا علاج کارکنان ِ مسلم کانفرنس کرنا جانتے ہیں ان خیالات کا اظہار راجہ ظہیر احمد کیانی ایڈووکیٹ سابق آفیسر تعلقات عامہ برائے وزیر اعظم آزاد کشمیرنے اپنے ایک تحریری بیان میں افتخار ایوب کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ افتخار ایوب اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اچھے بھلے کارکن رہے وہ مجاہد اوّل کے پی آر او اور پولیٹیکل سیکرٹری بھی اور پھر کشمیر کونسل کے ممبر بھی رہے لیکن یہ تینوں منصب اُنھوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے نہیں بلکہ مجاہد اوّل اور سردار عتیق احمد خان کی صوابدید تھی اور اُن کی مہربانی کہ انھوں نے ان کو یہاں ایڈجیسٹ کر کہ غریب پروری اور کارکن پروری کی لیکن کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی شیر کی نسل سے کوئی نیکی کرو تو وہ اس کا صلہ جو ہے وہ بھی اعلیٰ ظرفی کے اعتبار سے دیتا ہے جیسے ایک کہاوت مشہور ہے کہ کسی شخص کو عزت دے کر اس کی نسل چیک کی جا سکتی ہے کہ اگر خاندانی ہو تو بدلے میں اس سے زیادہ عزت دے گا اور اگر بد نسل ہوا تو وہ چوہے کی طرح آپ کے پر کاٹے گا جس طرح باز نے ایک چوہے کو پانی میں ڈوبتے ہوئے نکال کر اپنے پروں کے نیچے خشک کرنے کہ لیے رکھا تھا لیکن جب وہ گرم ہو کر خشک ہو گیا تھا تو اس نے اس کے تمام پر کاٹ دیے تھے اس لیے شیر کی نسل اور چوہے کی نسل میں یہی فرق ہوتا ہے یہ سیاسی چوہا ہے اور کام تو کُجا اسکی شکل سے بھی ایسے ہی ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ لوگ ایک عرصہ سے آزاد کشمیر میں ایک برادری عزم کی بنیاد پر ایک مفاداتی ٹولہ بنانے میں مصروف عمل تھے اور بلآخر وہ بنانے میں کامیاب ہوئے اور اس کی کارکردگی صفر ہے جو سب کہ سامنے ہے فاروق حیدر اپنے دو ادوار ومیں کوئی ایک میگا پراجیکٹ نہیں دے سکا وہ بیچارہ ہر روز اُلٹی سیدھی باتوں اور گالی گلوچ کے علاوہ کچھ نہیں کرتا وہ بھی جب وہ دوائی زیادہ لے لیتا ہے باقی ہمارے اس سیاسی شاہ دولے کا جو بیان تھا کہ وہ پیسے لیتے ہیں تو اس بیچارے کو کشمیر کونسل کا جب ممبر بنوایا گیا اس کے اکاونٹ کی ضرورت پڑھی تو اس سیاسی چوہے کا بینک اکاونٹ تک نہیں تھا اور یہ خود بتائے کہ اس نے کیا دیا ہے ایک سیاسی شاہ دولہ اگر یہ کہتا کہ میں گواہائی دیتا ہوں کے عتیق صاحب نے پیسے لیے تھے تو بات سمجھ میں آتی تھی جو ایک شخص خود اسی منصب پر فائز ہوتا ہے تو کچھ نہیں دیتا لیکن دوسرے کے لیے گھٹیا ترین زبان کا استعمال اس کم ظرف اور جھوٹا ہونے کی بہترین دلیل ہے ایسے ہی گھٹیا لوگ مسلم کانفرنس کو چوستے رہے جو یہ سمجھتے تھے کہ پارٹی پر صرف ان چوروں کا ہی حق ہے ۔ افتخار ایوب اپنے خاندان اور سیاسی کارکنوں کے نام پر بد نما داغ ہے انسان کو محسن کُش اور احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر اس میں یہ صفات موجود بھی ہوں تو اس کو اتنا گھٹیا اور کم ظرف نہیں ہونا چاہیے یہ سیاسی بُونا بتائے کہ مسلم کانفرنس کے عہدے اس کے نام سے ہٹا دیے جائیں تو پیچھے ایک سیاہ رنگ کا چوہا اور سیاسی شادولہ ہی بچتا ہے۔ سیاسی اختلاف ایک دوسرے سے ہو سکتے ہیں لیکن سردار عتیق احمد خاں ایک ممتاز سیاسی لیڈر ہیں جو بین الاقومی شہرت کے حامل ہیں اور ریاست جموں کشمیر کا بین الاقومی طور پر چہرہ ہیں اور وہ ریاست کے وقار کی علامت ہیں پوری ریاست کے لوگ اُنکے کردار علم بُردباری اور سلیقہ شعاری کی وجہ سے اُن کا احترام کرتےہیں وہ اپنا ایک منفر دمقام اور مرتبہ رکھتے ہیں اس لیے ہم اس سیاسی بونے کے بیان کی پُرزور مذمت کرتے ہیںایک بادشاہ کے دربار میںایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،اسے خاص ” گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج ” بنا لیاجو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا۔چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،اس نے کہا "نسلی نہیں ھےبادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیں کو بلاکر دریافت کیا،اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے۔بادشاہ نے اس شخص کو بلاکر پوچھا تم کو کیسے پتا چلا کہ یہ اصلی نہیں ھے؟اس نے کہا،جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھاکر کھاتا ھے۔بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،اس کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلیٰ گوشت بطور انعام بھجوایا۔اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،چند دنوں بعد، بادشاہ نے اس سے بیگم کے بارے میں رائے مانگی،اس نے کہاطور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا،معاملہ اس کے گوش گذار کیا۔ اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی، چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لیے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا۔بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک” جاہلوں سے بدتر ھے،بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں” بطور انعام دیں۔ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا۔کچھ وقت گزرا،”مصاحب کو بلایا،””اپنے بارے دریافت کیا،” مصاحب نے کہا، جان کی امان،بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے”تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ھوا” ؟؟؟اس نے کہا،
"بادشاہ” جب کسی کو "انعام و اکرام” دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات” کی شکل میں دیتے ھیں،،،،
لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں” عنایت کرتے ھیں”یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں ”
کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے۔عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔