آرٹیکل
سانحہ سترہ جون ظلم و بربریت کی داستان
ہائے میری بہن،ہائے اللہ جی میری بہن اللہ کو پیاری ہو گئی یہ الفاظ ایک مرتی ہوئی بہن کے گال تھپتھپاتے بے بس بھائی کے تھے،الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ جو کانوں کے راستے دماغ میں اتر رہا تھا دیکھتی آنکھیں یہ سارے مناظر براہ راست دیکھ رہی تھیں ایک بے خبر تھے تو اس ملک کے حکمران،جن کے حکم پر یہ سب کچھ ہو رہا تھا سفید داڑھی والے بزرگ جن کے سر پھاڑے جا رہے تھے نوجوانوں کے ٹخنوں،کمر اور ٹانگوں پر ڈنڈے برسائے جا رہے تھے ا ور حاملہ عورتوں پر گولیاں برساتے پولیس والے یوں لگتا تھا یہ پولیس کے سپاہی نہیں بے حس روبوٹ ہیں جن کو بس حکم بجا لانے کی جلدی تھی اور انہیں کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کسی کی ماں چھن گئی تو کسی کی بہن،کوئی باپ سے محروم ہوا تو کوئی بیٹے سے لیکن کسی کا دل نہیں کانپا ایک بچی چیخ چیخ کر اپنی ماں کو پکار رہی تھی مگر ماں اگلی دنیا سدھار چکی تھی یہ سب مناظر 17جون ماڈل ٹاؤن سانحے کے ہیں وہ سانحہ جس نے حکمرانوں کے روپ میں چھپے بھیڑیوں کی قلعی کھول دی حکمران لاکھ انکوائری کمیشن کی رپورٹیں دبوائیں یا دولت سے ضمیر خریدیں بے گناہوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ”جو چپ رہے گی زبان خنجر،لہو پکارے گا آستیں کا“پنجاب حکومت کے اپنے ہی قائم کیے گئے جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں کمیشن نے رانا ثنا اللہ اور وزیر اعلی شہباز شریف کو براہ راست ملوث قرار دیا ہے لیکن آج تک اس رپورٹ کو منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا کوئی اسے مسلکی لڑائی کا رنگ دینا چاہتا ہے تو کوئی اسے اپنے خلاف سازش لیکن لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ جس وزیر اعلی کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا انکی ناک کے نیچے ان کے گھر کے پاس ماڈل ٹاؤن میں انکی مرضی کے بغیر ان کی لا علمی میں نہتے پر امن لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے سارا میڈیا یہ مناظر براہ راست دکھاتا رہا گلو بٹ گاڑیاں توڑتا رہا افسران اسے تھپکیاں دیتے رہے،گولیاں چلانے والوں کو شاباشیاں دیتے رہے ایک بے خبر تھے تو وزیر اعلی جو خود کو خادم اعلی کہلواتے ہیں ہمارے گھر ایک خاتون کبھی کبھار آیا کرتی ہیں وہ اکثر تحرک کے ان اجتماعات میں شرکت کیا کرتی تھیں کہ جماعت خانے میں درود و سلام کی محفلیں سجتیں اور وہ ان میں ضرور شریک ہوا کرتیں لیکن اس دن کے بعد سے وہ سخت خوفزدہ ہو چکی ہیں ان کے ذہن سے وہ دلخراش مناظر مٹتے ہی نہیں،ان سے پوچھو تو بس ایک ہی بات کرتی ہیں ہم تو درود و سلام پڑھ رہے تھے کچھ ناشتہ کر رہے تھے کہ اچانک قیامت ٹوٹ پڑی بس مجھ سے کچھ نہ پوچھو نہتے لوگوں پر ایسا ظلم تو دشمن نے بھی نہیں کیا ہو گا وہ خوف کے مارے زیادہ بات نہیں کرتیں کہ قیامت کا شور تھا گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بھگدڑ نے ان کے حواس چھین لیے۔جانے کس طرح وہ وہاں سے نکلیں کیسے گھر پہنچیں پولیس والے کس کے حکم پر ایسا کر رہے تھے نوکری جانے کا خوف تھا یا کوئی دبی ہوئی نفرت ان کے ذہنوں میں کیا تھا یہ آج تک نہیں کھلا کہ وہ واقعی پولیس والے تھے یا پنجاب پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے دہشت گرد؟جو رانا ثنا اللہ کے انڈر کام کر رہے تھے،خرم نواز گنڈا پور کہتے ہیں ہم ڈیڈھ سال سے عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں عدالتوں کی یہ حالت ہے ابھی تک جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلش نہیں ہوئی ہم کس سے انصاف مانگیں؟اینکر کے اس سوال پر کہ آپ نے احتجاج کے لیے رمضان کا مہینہ ہی کیوں چنا ِخرم نواز گنڈا پوری نے کہا سترہ جون کو یہ سانحہ ہوا تھا تو ہم اس کو اسی دن ہی منائیں گے نا یہ تو نہیں کہ ہم اس دن کو بھول جائیں شہدا کا ہم پر قرض ہے ہاں البتہ ہم نے رات دس بجے سے صبح دو بجے تک کا دھرنا رکھا ہے اس وقت لوگ سو رہے ہونگے نہ کسی کے معمولات متاثر ہونگے نہ روزہ داروں کو تکلیف ہو گی اس سوال پر کہ ڈاکٹر طاہر القادری درمیان میں کہاں غائب ہو جاتے ہیں خرم نواز نے کہا تحریک مہناج القران نوے ملکوں میں اپنا وجود رکھتی ہے 65اسلامی ملکوں میں تحریک کے اسلامک سینٹر قائم ہیں ڈاکٹر صاحب اس لیے اکثر سفر میں رہتے ہیں انہوں نے کہا ہ ہمیشہ ایسا کمیشن بناتے جس کے ایک جج نے جلدی ریٹائر ہو جانا ہوتا ہے اسی وجہ سے جیسے ہی کوئی کمیشن رپورٹ تکمیل کو پہنچنے لگتی ہے ایک جج ریٹائر ہو جاتا ہے اور کام دوبارہ پھر وہیں سے شروع ہوتا ہے جبکہ باقر نجفی کی رپورٹ کو جان بوجھ کر دبا دیا گیا کیونکہ وہ ان کے خلاف جاتی ہے اس طرح کیسے انصاف ہو گا؟
امریکہ میں نائٹ کلب پ حملہ ہوا جس پر فوری ایکشن لیا گیا باراک اوباما نے قوم سے خطاب کیا تسلی دی جبکہ ہمارے حکمران اتنے بڑے سانحے پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ انصاف کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے اور آج تک معاملہ وہیں اٹکا ہوا ہے،ہاں اپنی دولت بچانے کے لیے وہ قوم سے ایک ماہ میں تین بار بھی خطاب کر لیتے ہیں اور خود کو انصاف دلانے کے لیے قومی خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں،خیر یہ کچھ بھی کر لیں ان کے دن گنے جا چکے ہیں اللہ ان کے ظلم کا حساب ضرور لے گا انشااللہ
امریکہ میں نائٹ کلب پ حملہ ہوا جس پر فوری ایکشن لیا گیا باراک اوباما نے قوم سے خطاب کیا تسلی دی جبکہ ہمارے حکمران اتنے بڑے سانحے پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ انصاف کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے اور آج تک معاملہ وہیں اٹکا ہوا ہے،ہاں اپنی دولت بچانے کے لیے وہ قوم سے ایک ماہ میں تین بار بھی خطاب کر لیتے ہیں اور خود کو انصاف دلانے کے لیے قومی خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں،خیر یہ کچھ بھی کر لیں ان کے دن گنے جا چکے ہیں اللہ ان کے ظلم کا حساب ضرور لے گا انشااللہ