آرٹیکل
غیبت ۔۔۔باعث ہلاکت : علامہ پیرمحمد تبسم بشیر اویسی
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
غیبت ۔۔۔باعث ہلاکت
علامہ پیرمحمد تبسم بشیر اویسی(ایم اے) ۔۔۔سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِ ھْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوْ اللّٰہ ط اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابُ الرَّحِیْم۔اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ،کیا تم میںکوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارانہ ہو گا اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبو ل کرنے والا مہربان ہے ۔‘‘(کنز الایمان)اس آیت پاک میں اللہ تعالیٰ نے غیبت سے منع فرمایا ہے اور غیبت کرنیوالے کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے ۔پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ غیبت سے اجتناب کرو ،کیونکہ غیبت زنا سے زیادہ بری چیز ہے ۔زنا کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے لیکن غیبت کی توبہ قبول نہیں کی جاتی ،جب تک وہ آدمی جس کی غیبت کی ہو وہ معاف نہ کر دے ۔‘‘(کیمیائے سعادت)حدیث شریف میں ہے کہ :’’غیبت یہ ہے کہ مسلمان بھائی کی پیٹھ پیچھے ایسے بات کہی جائے جو اسے ناگوار گزرے ۔اگر وہ بات سچی ہے تو غیبت ہے ورنہ بہتان۔‘‘(خزائن العرفان)معلوم ہوا کسی کی عدم موجودگی میں ایسی بات نہ کہی جائے جو اسے ناپسند گزرتی ہو ،اگر چہ کہنے والے نے سچ کہا ہو ۔اگر وہ بات جو غیر موجودگی میں کہی گئی ،دروغ اور جھوٹ ہے تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے ۔ایسی ہر ایک بات جس سے کوئی برائی واضح ہوتی ہو ،چاہے اس کا تعلق اس کے لباس ،جسم ،اسکے فعل یا قول کے متعلق ہو ،جیسے جسم کے بارے میں کہا جائے ،وہ طویل القامت یا سیاہ فام یا زرد فام یا گربہ چشم ہے یا احوال (بھینگا) ہے ۔یا کسی کے باپ کے بارے میں کہا جائے ،ناجائز بچہ یا جولا ہے کی اولاد ہے ۔یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادت والا ہے ،یا مغرور ،بد زبان ،کمزور دل ہے ،یا افعال کے بارے ہو کہ وہ چور ہے ،خائن ہے ،بے نمازی ہے ،نماز میں ارکان کو سکون سے ادا نہیں کرتا ۔قرآن پاک غلط پڑھتا ہے ،یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو پیشاب سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا ،یا حرام مال کھاتا ہے ،زبان چلاتا ہے ،بہت کھاتا ہے ،بہت سوتا ہے ،لباس کے بارے میں کہاجائے کہ کھلی آستین والا کپڑا پہنتا ہے دراز دامن یا میلا کچیلا لباس پہنتا ہے ۔یہ سب کی سب غیبت میں شامل ہیں ۔(کیمیائے سعادت) اللہ تعالیٰ نے غیبت سے منع فرمانے کے بعد فرمایا کہ :’’ کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے ،پھر فرمایا !کہ تمہیں یہ گوارانہ ہوگا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائو ۔مطلب یہ کہ طبعی طور پر تم یہ گوارا نہیں کرو گے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائو ۔بالکل اسی طرح تم شرعاً گوارا نہ کرو کہ میں کسی کی غیبت کروں ،کیونکہ غیبت کی عقوبت اس سے زیادہ ہے کہ تم اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائو۔‘‘(ابن کثیر)سید عالم ﷺ جب جہاد کیلئے روانہ ہوتے اور سفر فرماتے تو ہر دو مال داروں کے ساتھ ایک غریب مسلمان کو کر دیتے کہ وہ غریب انکی خدمت کرے ۔وہ اسے کھلائیں پلائیں ،تاکہ ہر ایک کا کام چلے ۔اسی طرح ایک موقع پر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ دو آدمیوں کے ساتھ کئے گئے تھے ۔ایک روز سو گئے اور کھانا تیار نہ کر سکے تو ان دونوں نے ا نہیں کھانا طلب کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ،حضور ﷺ کے خادم مطبخ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تھے ان کے پاس کچھ نہ رہا تھا ،انہوں نے فرمایا میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے یہی آکر کہہ دیا تو ان دونوں رفیقوں نے کہا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے بخل کیا ۔جو وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا ،میں تمہارے منہ میں گوشت کی رنگت دیکھتا ہوں ،انہوں نے کہا ہم نے گوشت کھایا ہی نہیں ۔فرمایا! تم نے غیبت کی اور جو مسلمان کی غیبت کرے ،اس نے مسلمان کا گوشت کھایا ۔(خزائن العرفان)غیبت کتنی ہلاکت خیز بلا ہے ،اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نماز روزہ جیسے بلند پایہ عظمت والی عبادت کی نورانیت کو بھی ختم کر دیتی ہے ۔چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ :’’ 2روزہ دار جب نماز عصر سے فارغ ہوئے تو نبی غیب داں ،سرور رسولاں ﷺ نے فرمایا ! تم دونوں وضو کرو اور نماز کو از سر نو پڑھو اور روز ہ پورا کرو ،اور دوسرے دن اس روزہ کی قضا کرنا ،انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! یہ حکم کس لئے ؟ نبی غیب داں ﷺ نے فرمایا تم نے فلاں کی غیبت کی ہے ۔(بیہقی شریف)ماہ رمضان المبارک کے پر بہار مبارک اور با برکت مہینے میں بھی مسلمان غیبت کا شکار ہو جاتے ہیں اس طرح اپنے روزوں ،نمازوں کی نورانیت کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ،خاص کر مسلم عورتیں توجہ دیں کیونکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ عورتیں مردوں سے زیادہ غیبت کا شکار ہیں ۔مسلم خواتین اس روایت کو بار بار پڑھیں اور درس عبرت لیتے ہوئے غیبت سے توبہ کر لیں ۔حدیث شریف میں ہے :’’دو عورتوں نے روزہ رکھا اور انہیں پیاس اتنی شدت سے لاحق ہوئی کہ ان کی جان پر بن آئی تو انہوں نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضری دی اور روزہ توڑنے کی گزارش کی ۔نبی اکرم ﷺ نے ایک پیالہ انکے پاس بھیجا اور فرمایا ،اس میں تم قے کرو۔ چنانچہ ان دونوں نے قے کی تو دیکھتے ہیں کہ انکے حلق سے جمے ہوئے خون کے لو تھڑے نکلے ۔دیکھنے والوں کو بڑا تعجب ہوا ،تو آپ ﷺ نے فرمایا ! ان دونوں عورتوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء سے روزہ رکھا تھا مگر حرام کردہ چیزوں سے توڑ دیا ۔ یعنی غیبت اور چغلی میں مشغول ہونے کے باعث ان کا روزہ ضائع اور باطل ہو گیا اور جو کچھ انکے حلق سے بر آمد ہوا حقیقتاً لوگوں کا گوشت ہے جسے ان عورتوں نے کھا یا یعنی غیبت کی ۔‘‘(کیمیائے سعادت) مسلمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ غیبت صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ ہاتھ آنکھ اور اشاروں سے بھی غیبت ممکن ہے اور یہ بھی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔چنانچہ حضرت حسان بن مخارق کہتے ہیں کہ:ایک عورت اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی ۔جب وہ عورت جانے کے لئے کھڑی ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پیارے آقا ﷺ کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ یہ عورت پست قد ہے تو پیارے آقا ﷺ نے فرمایا !تم نے غیبت کی ہے ۔‘‘(ابن کثیر)لنگڑے کی طرح چلنا ،ٹیڑھی آنکھیں بنانا کہ اس سے کسی کا حال واضح ہو جائے یہ سب غیبت ہے ۔اگر نام لے کر نہ کہے او رکہے ،ایک آدمی نے ایسا کیا تو یہ غیبت نہیں ہے مگر جب حاضرین کو پتہ چل جائے کہ اس سے مراد کونسا آدمی ہے تو پھر اس طرح بیان کرنا بھی حرام ہو گا کیونکہ قائل کا مقصد سمجھانا ہے وہ کسی بھی طریقے سے ہو ۔ (کیمیائے سعادت)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ بالا وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ کسی کی نقل کرنا بھی غیبت ہے ۔مثلاًکوئی لنگڑا ہے تو اس کے لنگڑے پن کی نقل کرنا ۔کسی کی آواز درست نہیں ہے تو اس کی نقل کرنا وغیرہ ،یہ سب بھی حرام اور جہنم میں لے جانے والے عمل ہیں ۔مدرسوں اور سکولوں کے ہاسٹلوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کی نقلیں کر کے خوب ہنسی مذاق کی محفلیں گرم کرتے ہیں ۔ایسے ناقل لڑکوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ غیبت ہے جو حرام ہے ۔خاص کر مدرسے کے لڑکوں کو چونکہ مدرسہ دارالعلوم ہوتا ہے ۔جب علم والے ہی بے عملی کریں گے تو بے علموں کا کیا حال ہو گا۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیبت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ غیبت نہیں ہے ۔مثلاً جب انکے سامنے کسی کا ذکر ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے محفوظ رکھا تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ وہ آدمی ایسا کرتا ہے ۔یا جیسے کہتے ہیں کہ فلاں تو بہت نیک تھا لیکن وہ بھی اہل دنیا میں پھنس گیا اور وہ بھی ہماری طرح لوگوں میں مبتلا ہو گیا ۔اسی قسم کی اور باتیں کہتے ہیں اور کبھی اپنی برائی ایسے کرتے ہیں جس سے دوسرے کی برائیاں واضح ہو جائیںاور جب کبھی انکے رو برو کسی کی غیبت کی جاتی ہے تو اس بات پر اظہار تعجب کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ کتنی انوکھی بات ہے ،تاکہ غیبت کرنے والا ہو شیار ہو اور دوسرے بھی جانیں اور جو غافل تھے وہ بھی اس بات کو سن لیں ،کہتے ہیں بھائی ! ہمیں اسکے بارے میں سن کر بہت رنج پہنچا ہے ۔اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے ۔غرض یہ ہے کہ دوسرے لوگ آگاہ ہو جائیں ۔کبھی ایسا ہوتا ہے جب کسی کا ذکر درمیان میں آتا ہے تو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق دے تاکہ لوگ سمجھ جائیں کہ فلاں آدمی نے گناہ کیا ہے یہ سب باتیں غیبت میں شامل ہیں ۔اور جب ایسی فضول باتوں سے مطلب نکل آتا ہے تو اس میں حماقت بھی پائی جاتی ہے ۔یہ جو خود کو نیک اور دوسرے سے بیزا رکیا جا رہا ہے ،اس میں دو گناہ ہوئے اور بے عقل اسے جان بیٹھے کہ ہم نے غیبت نہیں کی ۔(کیمیائے سعادت) جیسے کسی کا عیب دوسرے سے کہنا صحیح نہیں ہے ایسے ہی اپنے دل سے کہنا بھی صحیح نہیں ہے ۔دل سے غیبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی کے بارے میں برا خیال کرو بغیر اسکے کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے کوئی برا کام دیکھا ہو یا کانوں سے سنا ہو یا اس فعل بد پر آپ کو یقین کامل ہو ۔چنانچہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا مال ،ان کا خون اور ان سے بد گمانی ان تینوں باتوں کو حرام کیا ہے ۔ان تینوں باتوں میں بھی کسی کے دل میں آئے اور اس پر یقین نہ ہو اور نہ دو عادل شاہدوں نے اس پر گواہی دی ہو تو سمجھ لو ،یہ بات دل میں شیطان نے ڈالی ہے ۔‘‘(کیمیائے سعادت)معزز قارئین! غیبت کرنا تو گناہ کبیرہ ہے ہی غیبت سننا بھی گناہ کبیرہے ۔لہٰذا جب کوئی غیبت کر رہا ہو تو اس کو روک دیجئے !اور ثواب بھی کمائیے !کہ فرمان مصطفیٰﷺ ہے :’’ جو اپنے (مسلمان) بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے۔‘‘(مسند امام احمد)اگر روک نہیں سکتے تو ممکن ہو تو وہاں سے اُٹھ جائیے ۔ اُٹھ سکتے ہیں نہ ہی بات بدل سکتے ہیں ،تو کم از کم دل میں براجانئیے یا اس بات کی طرف بے تو جہی بر تئیے مثلاً بیزاری کیساتھ ادھر اُدھر دیکھئے ،بار بار گھڑی دیکھئے وغیرہ۔معزز قارئین! کانپ جائیے اور ہیبت خدا وندی سے مرعوب ہو کر غیب سے تو بہ کر ہی لیجئے ۔کہ اس کی وجہ سے گناہوں کا بوجھ تو سر پر آتا ہی ہے اور ساتھ ہی نیکیاں بھی مٹ جاتی ہیں ۔چنانچہ روایت ہے :’’ کہ انسان قیامت کے روز اپنا نامۂ اعمال نیکیوں سے خالی دیکھ کر گھبراکر کہے گا ، میں نے جو فلاں فلاں نیکیاں کی تھیں ،وہ کہاں گئیں ؟ کہا جائے گا ،تو نے جو غیبتیں کی تھیں اس وجہ سے مٹادی گئی ہیں ۔‘‘(ترغیب)لہٰذا اب یہ علم ہونا ضروری ہے کہ جو غیبت کی حرص کرنیوالے دل کی بیماری میں مبتلا ہے ا س کا علاج کرنا چاہیے ۔اس کا علاج دو طرح سے ہے ۔
1۔ علمی علاج :وہ یہ ہے کہ غیبت کی مذمت میں جو احادیث آئی ہیں ان پر غور و خوض کرے اور اچھی طرح سمجھے کہ غیبت کی وجہ سے اسکی نیکیاں کسی کے نامۂ اعمال میں چلی جائیں گی اور وہ خود خالی ہاتھ رہ جائے گا پیارے آقا علیہ السلام نے فرمایا !انسان کی نیکیوں کو غیبت ایسے نابود کر دیتی ہے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو ۔‘‘
2۔ عملی علاج :وہ یہ ہے کہ اپنی غیبت سے خوف کرے ۔اگر خود میں کچھ نقص پاتا ہے تو سمجھے کہ وہ آدمی اپنے عیب میں اس کی طرح ہی معذور ہے اور اگر اپنی ذات میں کوئی کمی اور نقص نہیں پاتا تو اچھی طرح سمجھ لے کہ اپنے عیب سے غافل رہنا بھی ایک عظیم عیب ہے ۔
غیبت کرنا حرام ہے جیسے جھوٹ کہنا لیکن ضرورت اور حاجت کے پیش نظر یہ عذروں کی وجہ سے مباح ہے :
۱۔ بادشاہ یا قاضی کے سامنے فریاد کرنا ،اس وقت غیبت صحیح ہے یا کسی ایسے آدمی کے روبرو کہنا جس سے مدد کا طالب ہو ۔لیکن ایسے آدمی کے سامنے جس سے اعانت کی اُمید نہ ہو ۔مثلاً ظالم سے ظلم کو بیان کرنا صحیح نہیں ہے ۔
۲۔ دوسرا عذر یہ ہے کہ کسی جگہ لڑائی یا فتنہ دیکھ کر کسی ایسے آدمی سے کہنا جو احتساب کی طاقت اور فساد پھیلانے والے کو باز رکھ سکتا ہو ۔
۳۔ تیسرا عذر یہ ہے کہ کسی کے شر سے بچنا چاہتا ہو جیسے کوئی بدعتی ہو یا چور اور اس پر کوئی آدمی بھروسہ کرنا چاہتا ہے تو اس حالت میں عیب ظاہر کر دینا صحیح اور روا ہے ۔اور اسے چھپانا مسلمان کیساتھ دھوکہ کرنے کے برابر ہے ۔
۴۔ چوتھا عذر یہ ہے کہ کوئی آدمی ایسے نام سے معروف ہو جس میں غیبت کے معنی موجود ہوں ،جیسے اعمش اور اعرج یعنی لولہ اور لنگڑا یا اس قسم کے دوسرے نام تو جب کہ وہ شخص اس طرح کے کسی عیب زدہ نام سے جانا جاتا ہو اور اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی ،برا نہیں مانتا تو ایسی صورت میں غیبت مباح ہے ۔
۵۔ پانچواںعذر یہ ہے کہ وہ اس آدمی کے متعلق ہے جو اپنا فسق ظاہر کرے ،جیسے ہیجڑا ،شراب نوشی ایسے لوگ جو فسق کو معیوب نہیں جانتے ان کا ذکر کرنا رواہے ۔ (ریاض الصالحین)
معزز قارئین! غیبت اتنا پر تشویش گناہ ہے کہ اس سے تو ہر مسلمان کو بہر حال بچنا ضروری ہے ۔اگر بتقضائے بشریت غیبت کر چکے تو فوراً اس کا کفارہ ادا دینا چاہیے۔غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ توبہ کرے اور نادم و شرمندہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفو ظ رہے ۔
ہمارے آقا ﷺ نے فرمایا :’’جس نے کسی کے مال یا عزت کے معاملہ میں اس پر ظلم کیا ،تو وہ اس سے معافی مانگے ،قبل اس کے کہ وہ دن آئے کہ جس دن نہ درہم رہے گا نہ دینار ،مگر اسکی نیکیاں مظلوم کو دی جائیں گی ۔اگر اسکے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کے گناہ اسکی گردن پر ڈال دئیے جائیں گے ۔‘‘(کیمیائے سعادت)
پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں :’’میں شب معراج ایسی قوم سے گزر اجو اپنے چہروں اور سینوں کو تانبے کے ناخنوں سے چھیل رہے تھے ۔میں نے پوچھا !اے جبرائیل !یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا ! یہ لوگوں کی غیبت کرتے اور ان کی عزت خراب کرتے تھے ۔‘‘(ابو دائود شریف)
حضرت سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’بتایا گیا ہے کہ عذاب قبر کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ایک تہائی عذاب غیبت سے ، ایک تہائی چغلی سے اور ایک تہائی پیشاب (کے چھینٹوں سے خود کو نہ بچانے ) کی وجہ سے ہوتا ہے ۔‘‘(احیاء العلوم )
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی :’’جو شخص غیبت کا شکار ہوا اور پھر اس نے توبہ کر لی ،تب بھی وہ جنت میں سب سے آخر میں داخل ہو گا ،اور جو شخص غیبت پر مصر ہوا وہ جہنم میں سب سے پہلے ڈالا جائے گا۔(نزہۃ المجالس )
اللہ تعالیٰ سارے مسلمانوں کو غیبت کی تباہ کاریوں سے محفوظ و مامون رکھے اور تمام مسلمانوں کو نیکیوں سے محبت کرنے اور گناہوں سے نفرت کرنے کی سعادت نصیب فرمائے ۔آمین